اٹکھیل

( اَٹْکھیل )
{ اَٹ + کھیل (ی مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اردو میں آیا۔ دو الفاظ 'اٹ' اور 'کھیل' سے مرکب ہے۔ اردو میں ١٧١٨ء کو "دیوان زادہ خانم" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع غیر ندائی   : اَٹْکھیلوں [اَٹ + کھِے + لوں (و مجہول)]
١ - کھلاڑ، شوخ، اٹکھیلیاں کرنے والا۔
 وہ جھمکڑا اور ادائیں دیکھ اس اٹکھیل کی مجھ کو انشا آ گئی پریوں کی صف کی صف نظر      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ١٩٥ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : اَٹْکھیلیں [اَٹ + کھے + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَٹْکھیلوں [اَٹ + کھے + لوں (و مجہول)]
١ - شوخی، اٹھلاہٹ۔
 چار ابرو ہو کے تم کچھ ہو گئے ہو چار ضرب عاشقوں کے ساتھ یہ اٹکھیل پیارے خوب نئیں      ( ١٧١٨ء، دیوان آبرو (ق)، ١٦١ )
١ - اَٹکھیل کھیلنا
ناز و ادا دکھانا، شوخی کرنا۔ نگوڑی چاہت کو کیوں سمیٹا عبث کی جھک جھوری جھیلنے کو دو گانا پڑ جائے ٹپکی ایسی تمھارے اٹکھیل کھیلنے کو      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ٢٠٣ )
  • wanton
  • playful