اٹکنا

( اَٹَکْنا )
{ اَٹَک + نا }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان کے لفظ 'اٹک' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگایا گیا ہے۔ اردو میں ١٦٥٨ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - (ایک چیز کا دوسری میں) الجھنا، پھنسنا، گڑنا اور نکل نہ سکنا۔
"دانتوں میں اگر کوئی چیز اٹک جائے تو منہ پر ایک ہاتھ رکھ کر دوسرے ہاتھ سے خلال کرتے ہیں۔"    ( ١٩٣٢ء، مشرقی مغربی کھانے، ٧٩ )
٢ - حلق میں نوالے کا رکنا اور نیچے نہ اترنا، پانی وغیرہ حلق سے نہ اترنا۔ (نوراللغات، 61:1)
٣ - (رقم وغیرہ کا) کسی کے پاس رک جانا، ادائی یا واپسی نہ ہونا، جیسے : میرا اگلا ہی روپیہ اٹکا ہوا ہے، میں اب آگے نہ دوں گا۔
٤ - رک رک کر پڑھنا یا بات کرنا۔ جیسے : تم لفظ لفظ پر اٹکتے ہو تو پورا صفحہ کیسے پڑھو گے۔
٥ - (کسی جگہ) ٹھہرنا، جمنا، رک جانا، تامل کرنا۔
"دنیا کا کوئی کام اٹکا نہیں رہتا، خدا مسبب الاسباب ہے۔"      ( ١٩٠٥ء، مکاتیب شبلی، ٢٢:٢ )
٦ - (کام، مطلب، غرض وغیرہ) بند یا ملتوی رہنا، پورا نہ ہونا، مقصد حل نہ ہونا۔
 پہلو سے تو جاتے ہو مگر یہ بھی سمجھ لو اٹکی نہیں رہتی مرے سرکار کسی کی      ( ١٩٠٣ء، سفینہ نوح، ١٥٣ )
٧ - تعلق ہونا، محبت میں مبتلا ہونا، آشنائی ہونا (عموماً 'سے' کے ساتھ)
"میم صاحب فراق شوہر کا صدمہ سہ نہ سکیں اور کسی دوسرے سے اٹک گئیں۔"      ( ١٩٢٤ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٢٤:٩، ٣ )
٨ - موقوف ہونا، منحصر ہونا (پر کے ساتھ)
"ہندو قوم کی فنا اور بقا کا مسئلہ اب ان کے خیال میں شدھی تحریک پر اٹکا ہوا تھا۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، خاک پرواز، ١٤٦ )
٩ - مقابل میں آنا، ٹکرانا، مزاہم ہونا۔
 دیکھ تو ہو نہ گیا شرم سے پانی پانی ان کے دانتوں سے تو اٹکا در شہوار عبث      ( ١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ١٠٥ )
١٠ - عارضی طور پر نوکر ہو جانا، مشغول ہو جانا۔
"آپ سفارش کر دیتے تو میں بھی کہیں اٹک جاتا۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٢٤١:١ )
١١ - [ مرغ بازی ]  مرغی کے پٹھوں کا بطور عادت آپس میں ایک دوسرے سے دو دو چونچیں کرنا، مڈھ بھیڑ یا الیل کرنا۔(اصطلاحات پیشہ وراں، 106:8)