آمین

( آمِین )
{ آ + مِین }
( عربی )

تفصیلات


امن  آمِین

عربی زبان میں 'امن' سے مشتق ہے اور بطور حرف ندا مستعمل ہے اور اردو زبان میں بطور حرف ندا اور گاہے بطور اسم بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٥٠٣ء میں 'نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف ندائیہ
١ - یا اللہ ایسا ہی کر، ہماری یہ دعا قبول فرما۔
 آمین تک زباں سے نکلتی نہیں یہ کیا مغرور اتنا اے دل بے مدعا نہ ہو      ( ١٩٢٧ء، آیاتِ وجدانی، ٢٢١ )
٢ - [ فقہ ]  تلاوت یا قرات میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر پڑھنے اور سننے والے کی زبان سے ادا ہونے والا کلمہ۔
'پھر سورۂ فاتحہ - آخر تک پڑھے اور ختم کرنے کے بعد آہستہ سے آمین کہے۔"      ( ١٩٢٤ء، نمازوں کا بیان، خواجہ حسن نظامی، ٣ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آمِینیں [آ + می + نیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آمِینوں [آ + می + نوں (و مجہول)]
١ - ختم قرآن شریف کی تقریب جو کسی بچے کے تعلیم قرآن ختم کرنے کی خوشی میں منائی جاتی ہے (جس کی صورت اکثر مسلمانوں کے ہاں یہ ہوتی ہے کہ جب بچہ قرآن پاک کی تعلیم ختم کرتا ہے تو استاد ایک دعا اور کچھ اشعار پڑھتا جاتا ہے اور سننے والے آمین کہتے جاتے ہیں)۔
'آج ناصر کی آمین ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٤٠:١ )
  • تائِیدِ دعا
  • خُدا کرے
١ - آمین آمین ہونا
امن و امان ہونا، سکھ چین پھیل جانا۔ (ماخوذ : فرہنگ آصفیہ، ٢٩:١)'پھر جو اٹھی تو ہنسی خوشی کھیلنے کودنے لگی آمین آمین ہو گئی۔"      ( ١٩١١ء، قصّہ مہر افروز، ١٦ )
٢ - آمین بولنا
بآواز بلند آمین کہنا۔ ختم سودا کرے سخن بدعا آمین سب بولیں بندگان حضور      ( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ٢٩٣:١ )