بکنا

( بَکْنا )
{ بَک + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


وچ  بَک  بَکْنا

سنسکرت میں اصل لفظ 'وچ' سے ماخوذ اردو زبان میں 'بک' مستعمل ہے اس کے ساتھ اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگنے سے 'بکنا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٦٣٨ء میں "چندر بدن و مہیار" میں مستعمل ہے۔

فعل لازم
١ - منھ ہی منھ میں کہنا۔
 پہروں دیوانوں کے مانند کبھی آپ ہی آپ بکا کرتے ہیں      ( ١٩٠٥ء، انجم، دیوان، ١٠٥ )
٢ - بکواس کرنا، مہمل بات کہنا۔
'لوگ بکتے ہیں، جھک مارتے ہیں، آپ دیوی ہیں۔"      ( ١٩٤٤ء، افسانچے، کیفی، ٥٥ )
٣ - منھ سے نکالنا، زبان سے کہنا۔ (نازیبا بات کے لیے)۔
'گالی بکنا بری بات ہے۔"      ( ١٨٧٧ء، توبۃ النصوح، ٩٣ )
٤ - برا بھلا کہنا، ڈانٹنا۔
'تھوڑی دیر کھڑی کھڑی بکا کیں اور بکتے بکتے تھک کے چلی گئیں۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٣٧ )
  • to prate
  • chatter
  • jabber;  to rave;  to indulge in obscene or ribald talk;  to rail (at)