بلبلا

( بُلْبُلا )
{ بُل + بُلا }
( سنسکرت )

تفصیلات


بدبد  بُلْبُلا

سنسکرت میں اصل لفظ 'بدبد' سے ماخوذ اردو زبان میں 'بلبلا' مستعمل ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٧٩٥ء میں 'قائم" کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بُلْبُلے [بُل + بُلے]
جمع   : بُلْبُلے [بُل + بُلے]
جمع غیر ندائی   : بُلْبُلوں [بُل + بُلوں (واؤ مجہول)]
١ - پانی کا وہ قطرہ جو نصف کروی شکل میں سطح آب پر ہوا بھر جانے سے بھرتا ہے، حباب، پانی کا بُلّا (مجازاً) ناپائدار، فانی نازک چیز۔
 قصر کی فکر غلط دار فنا میں اے شوق بلبلے خوب بنا لیتے ہیں گھر یوں ہی سا      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٢٧ )
  • bubble;  any frail thing