حباب

( حَباب )
{ حَباب }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'حب' کے ساتھ فارسی اسم 'آب' لگانے سے 'حباب' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : حَبابوں [حَبا + بوں (و مجہول)]
١ - پانی کا وہ قطرہ جو ہوا بھرنے سے بھول کر اوپر ابھر آتا ہے اور الٹے پیالے کی شکل کا ہوتا ہے، بلبلا۔
 نہیں ہے ہم میں بصیرت کہ ہم بھی دیکھ سکیں درخت بیج میں پنہاں، حباب میں دریا      ( ١٩٨١ء، ناتمام، ١٢٨ )
٢ - ایک زیور کا نام جو ہاتھوں میں پہنا جاتا ہے۔
"پہونچیاں کنگن . موتی پاک حباب . سر سے پاؤں تک سونے موتیوں میں لدی ہوئی۔"      ( ١٨٨٥ء، بزم آخر، ٣١ )
٣ - باریک شیشے کے کنول، وہ گولے جو باریک شیشے کے مختلف سائز کے مختلف رنگوں میں ہوتے ہیں اور آراستگی کے لیے مکانوں کی چھتوں یا طاقوں میں لگائے جاتے ہیں۔
"دالانوں میں قالین ایرانی کا فرش اور روشنی کا سامان، جھاڑ فرشی، بلوری . حباب . مبارک سلامت کاغل۔"      ( ١٩٢٤ء، خلیل خاں فاختہ، ٦٠ )
٤ - شراب رکھنے کا شیشہ جو حباب کی شکل کا ہوتا ہے۔
"جوں ہی رنگ بہ رنگ کے حباب اور لگابیاں طاقوں پر چنی ہوئی نظر پڑیں دل للچایا کہ ایک گھونٹ لوں۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٥٤ )
٥ - شیشے کے گول کھلونے جن میں بچوں کے لیے رنگدار پانی بھرتے ہیں۔ (جامع اللغات)۔
٦ - وہ بلبلہ سا جو شیشے میں رہ جاتا ہے، وہ حباب کی شکل کا جو ہوا بند ہو جانے سے جرم شیشے کے رہ جاتی ہے۔ (جامع اللغات، نوراللغات)
٧ - سفوف سے بھرا ہوا قمقمہ۔
"میں نے حباب مار کر عمرو کو بے ہوش کیا۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نو خیز جمشیدی، ٢٨٣:٣ )
٨ - معمل میں تجربات کے لیے مستعمل شیشے کا گول ظرف۔
"حباب کے اندر کے باقی ماندہ گیس کا اثر ساقط کرنے کے لیے . قرص لٹکائے۔"      ( ١٩٣٩ء، طبیعی مناظر، ٣٨٠ )
  • a bubble