بلبل

( بُلْبُل )
{ بُل + بُل }
( عربی )

تفصیلات


اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے البتہ اردو میں فارسی کی وساطت سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٠٣ء میں 'نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : بُلْبُلیں [بُل + بُلیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بُلْبُلوں [بُل + بُلوں (واؤ مجہول)]
١ - گوریا کے برابر ایک خوش آواز و رنگ پرند جس کے سر کی خوصورت چوٹی اور سر سیاہ پیٹھ خاکستری اور دم کے نیچے سرخی ہوتی ہے اور جو پھول کا عاشق ہوتا ہے (یہ عموماً ایران میں پایا جاتا ہے، برصغیر میں اس سے ملتا جلتا ایک پرند پایا جاتا جو گلام کہلاتا ہے)
'گانے والے پرندوں کو ایک گروہ میں رکھا گیا ہے مثلاً : قمری، بلبل وغیرہ۔      ( ١٩٤٢ء، حیوانیات، ٣٦ )
٢ - عاشق
 ہر ذرۂ عالم میں ہے خورشید حقیقی یوں بوجھ کے بلبل ہوں ہر ایک غنچہ دہاں کا      ( ١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٢٣ )
٣ - [ تصوف ]  عاشق صادق جو ہمیشہ ذکر و فکر میں مشغول اور نفس امارہ سے فارغ البال رہے۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 63)
  • the nightingale