آڑا

( آڑا )
{ آ + ڑا }
( سنسکرت )

تفصیلات


آورک  آڑا

سنسکرت زبان میں اصل لفظ 'آورک' ہے لیکن اردو زبان میں داخل ہو کر 'آڑا' مستعمل ہے سب سے پہلے ١٥٠٣ء میں "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر )
جنسِ مخالف   : آڑی [آ + ڑی]
واحد غیر ندائی   : آڑے [آ + ڑے]
جمع   : آڑے [آ + ڑے]
جمع غیر ندائی   : آڑوں [آ + ڑوں]
١ - ٹیڑھا، ترچھا، اریب، سیدھے رخ کے خلاف۔
"پانی کے شوق اور اپنے پیچ میں آپ بل کھا کر سرا ایسا آڑا ہو جاتا ہے کہ نوک سوراخ پر سے سرک جاتی ہے۔"      ( ١٩٠٣ء، مکاشفات آزاد، ٣٣ )
٢ - [ مجازا ]  جو اصول یا معمول کے خلاف ہو(کام یا بات)، بے تکا، الٹا سیدھا۔
 اپنوں سے بھی چلتا تھا ستمگار جو آڑا شمشیر نے منہ ایک طمانچے میں بگاڑا      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (ق)، ١٤ )
٣ - مقیشی تار کا ڈور یا جس کے جامے شادی بیاہ میں بنتے ہیں (فرہنگ اثر، 110:2)
 کوئی سیدھی بات صاحب کی نظر آتی نہیں آپ کی پوشاک کو کپڑا بھی آڑا چاہیے      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ١٨٤:٢ )
٤ - عرضاً، پٹ، لٹیوان، پٹوا، دائیں سے بائیں کو، طوطا اور کھڑا کے خلاف۔
"یہ تمام افعال ان ریشوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں جو معدہ میں آڑے، لمبے اور چوڑے طور پر مخصوص ترکیب سے واقع ہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، ترجمہ شرح اسباب، ٢، ٣٨٢ )
١ - آڑی کرنا
(زرگری) ورق کا رخ بدل کر یعنی طولاً کوٹنے کے بعد عرضاً کوٹنا۔ (فرہنگ آصفیہ ١٥٤:١)
٢ - آڑی ہونا
"گونج ذرا مڑ گئی کہ خود آڑی ہو گئی۔"      ( ١٨٨١ء، صورت الخیال، ٧١:٢ )
٣ - آڑے آنا
درمیان میں آنا، حائل ہونا، مانع ہونا، رکاوٹ ڈالنا۔ پروانے کر چکے تھے سرانجام خودکشی فانوس آڑے آ گیا تقدیر دیکھنا      ( ١٩٢٧ء، آیات وجدانی، ٨٥ )
حمایت لینا، سپر بن جانا، مدد کرنا۔"بھلا ممکن تھا کہ کسی شخص پر برا وقت پڑے اور دادا جان اس کے آڑے نہ آ جائیں۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین فرحت، ٦١:٣ )
٤ - آڑے ہات (--ہاتھ / ہاتھوں) لینا
قول یا فعل سے شرمندہ یا مغلوب کرنا : قائل معقول کرنا، لتاڑنا۔"میرے بھی زبان ہے وہ آڑے ہاتھ لوں گی کہ ساس بھی یاد کرے۔"      ( ١٩٣٣ء، گھر گرہستی، ٢٧٤ )
٥ - آڑے ہونا
ناراض ہونا۔ درد دل پر یہ کون تھا مانع شرم آڑے ہوئی حیا مانع      ( ١٨٨٧ء، اختر (نوراللغات، ٩٣:١) )
٦ - آڑا اتارنا
کپڑے کو ترچھا پھاڑنا۔ (نوراللغات، ٩٢:١)
زوردار پتنگ کو ہوا کے رخ سے بچا کر نیچے لانا۔ (امیراللغات، ٩٣:١)
٧ - آڑا آنا
 مر ہی گئے تھے ہجر کی شب لیک بچ گئے کیا جانے کب کا آ گیا آڑا لیا دیا      ( ١٨٢٥ء، معروف (لغت کبیر، ٢٤٠:١) )
٨ - آڑا پڑنا
الٹ جانا، اوندھا ہو جانا، گر جانا، جھک جانا۔ یہ دل دیوانہ آہوں کے تراقے جب جڑے ہوئے زمین کا شق جگر اور آسمان آڑا پڑے      ( ١٧٦١ء، مہر علی مہر، از چمنستان شعرا، ٣٧٤ )
بیچ میں آنا، درمیان آنا، حائل ہونا۔"دوسرا بیٹا آڑ واڑ ہور آڑا پڑ کر بولنے لگیا۔"      ( ١٨٢٤ء، دکنی انوار سہیلی (دکنی اردو لغت، ٣) )
٩ - آڑا ترچھا آنا
آوازہ کسنا، برا بھلا کہنا، پھبتی اڑانا۔"اوروں سے مذاق کرتے کرتے میری طرف بھی آڑے ترچھے آنے لگے۔"      ( ١٩٠٣ء، آفتاب شجاعت، ٢٣٦:٢ )
١٠ - آڑا ترچھا رہنا
 مرے کوکا سے آڑی ترچھی تو رہتی ہے اے انا تجھے بیر اوستے ہے ہر بات میں تیری جھمیلا ہے      ( ١٨٣٠ء، امتحان رنگین، ٢٢ )
١١ - آڑا ترچھا کرنا
لگے ہاتھوں لینا، (کسی پر) غصہ کرنا۔ عشق پیچاں کو کیا ہم نے جو آڑا ترچھا سرو کو یار نے گلشن میں بنایا سیدھا      ( ١٨٧٠ء، دیوان مہر، الماس درخشاں، ١٩ )
١٢ - آڑا ترچھا ہونا
غصے سے بگڑنا، برہم ہونا۔ سیٹھ جی اتنے آڑے ترچھے نہ ہو واجبی نین سکھ کا مول کرو      ( ١٨٧٣ء، طلسم الفت (قلق) (امیراللغات، ٩٣:١) )
١٣ - اڑا چڑھانا
(پتنگ بازی) حریف کے پتنگ پر اپنے پتنگ کو ترچھا لے جانا۔ (امیراللغات، ٩٣:١)
١٤ - آڑا کھینچ جانا
(پتنگ بازی) پتنگ کو حریف کے پتنگ کے اوپر سے یا نیچے سے لے جانا اور مخالف سمت میں کھینچنا۔ (امیراللغات، ٩٣:١)
١٥ - آڑا لگنا
حائل ہونا۔سو آڑے لگیا ایک آ کر پہاڑ۔      ( ١٧٤٠ء، تحفۂ عاشق، وجدی، (دکنی اردو لغت، ٤٦) )
(پتنگ بازی) پتنگ کا آڑا اڑنا۔ (امیراللغات، ٩٤:١)
١٦ - آڑا ہونا
خفا ہونا، ناراض ہونا، برہم ہونا، برگشتہ ہونا۔ اگر نصیب ہیں سیدھے تو ڈر نہیں ہم کو بلا سے ہم سے وہ ہوں ٹیڑھے ترچھے یا آڑے      ( ١٨٥٤ء، کلیات ظفر، ١٣٨:٣ )
روکنا، منع کرنا، حائل ہونا، مزاحم ہونا۔ منگی جون او جانے سو آڑا ہو دن نجانے دیا سو رہی پھیر ان      ( ١٦٣٩ء، طوطی نامہ (غواصی)، ١٤٧ )
١٧ - آڑی آنا
 گودڑی کہنی اگر ہے تجھ کنے وہ بھی آڑی آئے تیرے رہ منے      ( ١٧٣٣ء، پنچھی نامہ، ٤٨ )
آوازہ کسنا، دوسروں پر بات رکھ کر برا بھلا کہنا، ہنسی اڑانا۔"نوزائیدہ شعرا پرانے شاعروں پر آڑی آتے ہیں۔"      ( ١٩٢٤ء، اودھ پنچ، لکھنءو، ٩، ٣:٣٥ )
دھول دھپا کرنا۔ (ماخوذ : امیراللغات، ٩٤:١)
١٨ - آڑی ترچھی لانا
آوازہ کسنا، دوسروں پر بات رکھ کر برا بھلا کہنا، ہنسی اڑانا۔"شعرا ان پر چاہے جیسے آڑی ترچھی لائیں . مگر انہیں پروا نہیں۔"      ( ١٩٢٣ء، مضامین شرر، ٢/١: ٦٩٥ )