ترچھا

( تِرْچھا )
{ تِر + چھا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم صفت ہے۔ سنسکرت میں اس کے مترادف 'تریچ+ک+کہ' استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "میر کے کلیات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ایک قسم کا ریشمی کپڑا جس کا اکثر استر لگایا جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)۔
٢ - ایک قسم کا کپڑا جس کے پیجامے بنتے ہیں۔ (نوراللغات)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : تِرْچھی [تِر + چھی]
واحد غیر ندائی   : تِرْچھے [تِر + چھے]
جمع   : تِرْچھے [تِر + چھے]
١ - ٹیڑھا، آڑا، کج۔
 واہ کیا ترچھے ڈوپٹے کا ہے بانکا انداز ہے زمانے کی اداؤں سے نکیلا انداز      ( ١٩١١ء، ظہیر دہلوی، دیوان، ٥٧:٢ )
٢ - [ مجازا ]  ناخوش، غصے میں بھرا ہوا، تند مزاج۔
 بات کے ترچھے اور کٹیلے ہیں دل کے لینے کو سب ہٹیلے ہیں      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٧٨:٢ )
٣ - [ مجازا ]  بانکا، تیکھا۔
"بادشاہ کی لطافت ذوق نے ان پلٹنوں کے نام، بانکا، ترچھا، گھنگھور، اختری اور نادری وغیرہ رکھے۔"      ( ١٩٧٥ء، لکھنو کی تہذیبی میراث، ١٠٨ )
٤ - منحرف، مخالف
"شاہ برہما ہماری سرکار سے ترچھا ہونے لگا۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات )