تجاوز

( تَجاوُز )
{ تَجا + وُز }
( عربی )

تفصیلات


جوز  تَجاوُز

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعل از مضاف سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مستعمل ہے ۔ اردو میں ١٦٣٩ء کو " طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع   : تَجاوُزات [تَجا + وُزات]
جمع غیر ندائی   : تَجاوُزوں [تَجا + وُزوں (و مجہول)]
١ - آگے بڑھنے یا مقررہ حد سے گزرنے کی حالت و کیفیت۔
"حیوانات کا ایک ایک فرد اپنے نوعی افعال و اخلاق سے ایک سرمو تجاوز نہیں کرسکتا۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٨٩:٢ )
٢ - فرق، تغاوت، مبالغہ۔
 تجاوز نہیں ذرہ اس بات میں کہ سب کا سفر ہے تر ے ہاتھ میں      ( ١٦٣٩ء، طوطی نامہ، غواصی، ٢ )
٣ - انحراف، عدول حکمی، خلاف ورزی۔
"یہ عمال. فرمان پر عمل کرتے تھے اور اس میں سر مو تجاوز جائز نہیں رکھتے تھے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٧٣:٢ )
٤ - (شارع عام یا سرکاری زمین پر ) ناجائز تصرف یا قبضہ۔
" فٹ پاتھ پر تجاوزات کا وسیع اور از حد اذیت ناک سلسلہ ختم کر دیا جائے۔"      ( ١٩٧٦ء، نوائے وقت، ٤ نومبر، ٢ )