اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - آؤ بھگت، گرم جوشی، خاطر مدارت؛ خلوص۔
ہزار کیجئے بناوٹ مگر نہیں بنتی گیا تپاک دلوں میں جہاں ملال آیا
( ١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ١٠ )
٢ - ربط و ضبط، اسم و راہ، اختلاط، میل جول۔
تپاک ایسا بڑھا پھر اس صنم سے بہت مخطوط و راضی تھے وہ ہم سے
( ١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، شایان، ٣٩:٢ )
٣ - برتاؤ، سلوک۔
جھجک تو دور ہوئی ڈریہ ہے مگر اے دوست لگا دے آگ نہ تیرا رکا رکا تپاک
( ١٩٤٦ء، مشعل، ٢٠١ )
٤ - نرمی، مہربانی، حسن اخلاق۔
"اس قدر تپاک و الطاف بادشاہ سے خلاف عادت تھے۔"
( ١٨٠١ء، باغ اردو، ١٥٣ )
٦ - [ طنزا ] بے پروائی، ظاہرداری۔
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا
( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ٦ )
٧ - بے چینی، بے قراری، اضطراب (نوراللغات)
٨ - نسبت، مناسبت، علاقہ۔
گو کہ باہم و گر اعضا میں منَاسب نہیں خاک ہے مگر چہرے کو بالوں کی سیاہی سے تپاک
( ١٩٣١ء، محب، مراثی، ٥١ )
٩ - التفات
جس نے کیا تپاک اسی نے کیا ہلاک جو آشنا ہوا وہی نا آشنا ہوا
( ١٩٠٥ء، داغ (نوراللغات) )
١٠ - عشق، اخلاص، محبت۔
ترے جلانے کو اے سنگدل صنم ہم نے اک اور صاعقَہ طور سے تپاک کیا
( ١٨٤٨ء، ناسخ، (نوراللغات) )