بھیڑیوں کے غول پھرتے تھے بنوں میں چیڑ کے تاکہ جو مل جائے واں آوارۂ دشت بلا
( ١٩٠٥ء، کلیات نظم حالی، ٢٧:٢ )
٢ - میدان، بیابان (جہاں کوئی درخت نہ ہوض۔
کوئی مقام نظر آ گیا جو بن کا سا کہا جنون نے یہ ہے مرے وطن کا سا
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٦١ )
٣ - مرغزار، سبزہ زار، سرسبز علاقہ۔
پھر بہار آگئی گھر میں الجھی ہوئی پھر بڑھی بیخودی دھن لگی دشت کی اف یہ جوش جنوں اف یہ گرمی یہ خوں پھول کھلنے لگے آگ بن میں لگی
( ١٩٥١ء، آرزو، ساز حیات، ٣٠ )
٤ - کپاس کا پودا، کپاس۔
'کپاس کہ اسے بن اور نرما بھی بولتے ہیں۔"
( ١٨٤٨ء، توصیف زراعات، ٧٧ )