پریشان

( پَریشان )
{ پَرے + شان }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو 'قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پراگندہ، منتشر، بکھرا ہوا، تِتربِتر جیسے کتاب کے اوراق، سر کے بال اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔
'داڑھی پریشاں، لباس میں کوئی سلیقہ نہیں نہ میلا نہ اُجلا۔"    ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٩٧ )
٢ - بٹا ہوا، ضائع، برباد۔
'جتنا زر سپاہ میں پریشان کیا اتنا ہی اپنی پریشانی کا سامان کیا۔"    ( ١٨٩٧ء، تاریخِ ہندوستان، ١٦:٨ )
٣ - حیران، سرگردان، مضطر۔
 دل آشفتہ ذکر زلف سے کیا کیا الجھتا ہے سنا جاتا نہیں قصہ پریشاں سے پریشاں کا    ( ١٨٧٨ء، گلزارِ داغ، ١٦ )
٤ - دق، عاجز۔
 بلبلیں کیا ساتھ دے سکتی ہیں نالوں کا مرے زاغ میرا ہمنوا ہو کر پریشان ہو گیا    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ١٤ )
٥ - فکرمند، متردد (پلیٹس؛ فرہنگ آصفیہ، 520:1)
٦ - تکلیف میں مبتلا، مصیت زدہ۔ (پلیٹس)
  • dispersed;  scattered;  disordered;  confused;  dishevelled;  tossed (as hair);  amazed;  distracted;  perplexed;  ruined bewildered;  deranged;  troubled;  distressed;  wretched