بوریا

( بورْیا )
{ بور (واؤ مجہول) + یا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں بطور اسم مستعمل ہے امکان ہے کہ اصل میں سنسکرت ہی ماخوذ ہے البتہ اردو میں 'بوریا' فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے ١٦٥٧ء میں "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بورْیے [بور + یے]
جمع   : بورْیے [بور (واؤ مجہول) + یے]
جمع غیر ندائی   : بورْیوں [بور (واؤ مجہول) + یوں (واؤ مجہول)]
١ - کجھور کے پتوں یا کسی اور نبات سے بنا ہوا فرش یا بستر، چٹائی۔
 کوئی پاے تخت سلیماں اگر مقدر میں گر بوریا ہے تو ہیچ    ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٤٩ )
٢ - بغیر سلی ہوئی بوری یا پٹ سن کا بنا ہوا فرش، ٹاٹ۔
 ارتقاے قوم کی ہے منزل آخر قریب گھٹ کے کھدر سے بدن پر بوریا ہونے تو دو    ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٩٨:٣ )
  • a mat made of palm leaves