بھنور

( بَھنْوَر )
{ بَھن (ن مغنونہ) + وَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


بھرمر  بَھنْوَر

سنسکرت کے اصل لفظ 'بھر مر' سے ماخوذ اردو زبان میں 'بھنور' مستعمل ہے اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے ١٦٥٧ء میں "گلشنِ عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - بہت سیاہ، (عموماً 'کالا' کے ساتھ مستعمل)۔
"برسات کی کالی بھنور راتیں . افضال کے سر پر آ اور جا رہی تھیں"      ( ١٩٣٦ء، ستونتی، ١١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بَھنْوَروں [بھَن (ن مغنونہ) + وَروں (و مجہول)]
١ - گرداب، دریا کا وہ مقام جہاں پانی ایک دائرے میں گردش کرتا ہے۔
 یہ چاہت کی چاندی امنگوں کا زر نگاہوں کی قوس قزح آنسوؤں کے بھنور      ( ١٩٨٠ء، شام کا پہلا تارا، ١٢٢ )
٢ - بھونْرا۔
 نین دیول میں پتلی یوہے یا کعبے میں ہے اسود ہرن کا ہے یونافہ یا کنول بھیتر بھنور دستا      ( ١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٥٠ )
٣ - [ مجازا ]  گردش قسمت یا فلک؛ گردش دوران، گھمیری، چکر۔
"صرف ایک بھنور ہے جس سے وہ خود کو آزاد نہ کر سکے"      ( ١٩٠٣ء، سرشار، فسانۂ آزاد، ١٨٥:٤ )
٤ - [ مجازا ]  وہ گڑھا جو گالوں میں یا تھوڑی میں پڑے، چاہ غنغب یا چاہ ذقن۔
 دو طفل خوب رو تھے دو جانب چنور لئے تھے ٹھوڑیوں میں جن کی غبغب کے بھنور پڑے      ( ١٩٥٨ء، تارپیراہن، ٢٤٢ )
٥ - تکمیل شادی کی ایک رسم۔ (ہندی اردو لغت، 131)
٦ - بیل، بیل کی طرح چڑھنے والا پودا۔ (پلیٹس)