پنکھ

( پَنْکھ )
{ پَنْکھ (ن غنہ) }
( سنسکرت )

تفصیلات


پکشہ  پَنْکھ

سنسکرت میں اسم 'پکشہ' سے ماخوذ 'پنکھ' اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٨ء کو 'کلیاتِ غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : پَنْکھوں [پَن (ن غنہ) + کھوں (و مجہول)]
١ - (پرندکا) بازو، پرِ پرواز، نیز کسی مشین یا پنکھے وغیرہ کے پر، مچھلی کی پشت اور پیٹ پر تیرنے کی مدد کے لیے قدرتی عضو۔
'یہ اعضاء مختلف مچھلیوں میں مختلف شکل اور نوعیت کے ہوتے ہیں ان کے علاوہ پنکھوں کی ساخت۔"      ( ١٩٦٤ء، کاروانِ سائنس، ٢، ٣٣:٣ )
٢ - [ مجازا ] جہاز کے بازو۔
 قبل اس کے کہ یہ مجھ کو تجھ تک اپنے پنکھوں پر بِٹھلا کے لائے    ( ١٩٨٠ء، شام کا پہلا تارا، ١٤٩ )
٣ - پنکھا، بازو۔
'وہ بٹھائیں گے، پنکھ جھلیں گے، چائے پلائیں گے۔"    ( ١٨٤٨ء، تاریخِ ممالکِ چین، ٦٦ )
٤ - دامن، آنچل۔ (علمی اردو لغت)
٥ - چودھری، مُکھیا، سردار۔
'اپنی برادری کا مقدمہ حتی المقدور عدالت میں جانے نہیں دیتے ان میں ایک جوگی کوتوال جس کو پنکھ کہتے ہیں مقرر ہوتا ہے۔"      ( ١٨٦٤ء، تحقیقاتِ چشتی، ٧٦٢ )
٦ - پرند۔
'ان میں سے پہلا جوڑا پنکھ بن جاتا ہے ان کے پَر ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٤٩ء، ابتدائی حیوانیات، ٤٤٨ )