پوٹ

( پوٹ )
{ پوٹ (و مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


پٹ  پوٹ

سنسکرت میں لفظ 'پٹ' سے ماخوذ 'پوٹ' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٠٣ء کو "پریم ساگر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : پوٹیں [پو (و مجہول) + ٹیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پوٹوں [پو (و مجہول) + ٹوں (و مجہول)]
١ - گٹھڑی، گٹھڑ، بقچہ، بنڈل، پشتارہ۔
'آٹے کی پوٹ اس کے سر پر رکھی اور لے چلا۔"    ( ١٨٢٤ء، سیرِ عشرت، ١١٧ )
٢ - [ مجازا ] ڈھیر، انبار، مجموعہ۔
'وہ کچی اینٹیں ڈھوتے جاتے تھے اور خوش ہو کر یہ شعر پڑھتے تھے - اور یہ پوٹیں مٹی کی ہیں مگر چونکہ اللہ کی راہ میں اٹھائی جاتی ہیں - ان پوٹوں سے کہیں بہتر نظر آتی ہیں۔"    ( ١٩٥٨ء، ذکرِ حبیب، ٤٣ )
٣ - کپڑے کے تھانوں کی بندھی ہوئی بڑی بہنگی، گانٹھ، پلندا، بوغ بند، بغچہ، گٹھڑ۔
'کپڑوں کی گٹھڑی باندھے - پوٹ لیے براجتے ہیں۔"      ( ١٨٠٣ء، پریم ساگر، ٣٨ )
٤ - ایک کپڑا جس میں اناج باندھتے ہیں۔ (جامع اللغات)۔
٥ - [ مجازا ]  نالی، پرنالہ، جھیل، تالاب۔
 ہوئی ہے مردک مانند ماہی پپوٹے آنکھ کے پانی کی ہیں پوٹ      ( ١٩٠٥ء، داغ، یادگار داغ، ١٤٨ )
٦ - فوارہ، سیل آب؛ گرہ۔
 عرق بن کر جو لیتا ہے رخِ محبوب کے بوسے اسے پانی کی پوٹ اے دیدۂِ نمناک ہونا تھا      ( ١٨٧٣ء، کلیاتِ منیر، ٢١٨:٣ )
٧ - کثرت، افراط، بہتات۔ (جامع اللغات)۔
٨ - پاٹ، چوڑائی۔
 تر دامنی سے اپنی برابر ہے مرتبہ دریا کی پوٹ اور مرے دامن کے پاٹ کا      ( ١٨٧٣ء، دیوانِ فدا، ٦٢ )
  • گَٹْھڑی
  • بار
  • inner margin;  bundle