اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - بانس یا سرکنڈوں وغیرہ کا بندھا ہوا چھوٹا ٹٹا، چک، چلمن؛ دیوار۔
"وہی قادر مطلق ہے جس نے باغ پیدا کیے بعض تو ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور کی بیلیں"
( ١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ٧١:٢ )
٢ - [ باغ بانی ] سدا بہار پودوں کی قطار جو چمن یا کیاری کے اطراف باڑ کے طور پر لگائی جائے، باڑ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 135:6)
پنجۂ گلگوں چمن کو اب دکھایا چاہیے اشک سے مہندی کی ٹٹی کو جلایا چاہیے
( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٦٥٤:٣ )
٣ - [ مجازا ] اوٹ، پردہ، حجاب۔
ہائے دیکھوں کیونکر ان کو اے ہجوم تار اشک ایک ٹٹی سے کھڑی ہے چشم ترکے سامنے
( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ١٨٤ )
٤ - [ مجازا ] پاخانہ، جائے ضرور، بیت الخلا، سنڈاس۔
"کھاد کے گڑھوں کو ٹٹی کے طور پر استعمال کرو . پردے کے لیے ارد گرد باڑ لگادو"
( ١٩٢٨ء، دیہاتی اصلاح، ٣٣ )
٥ - آرائش (پھول وغیرہ) جو شادی، بیاہ میں تخت رواں پر لے جاتے ہیں۔
ہر اک ٹٹی تھی مینا کار خوش رنگ سجا تھا اس طرح پر عقل تھی دنگ
( ١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، ٥٢٢:٢ )
٦ - وہ چھت یا چوبی چار دیواری جس پر انگور کی بیل چڑھاتے ہیں۔
"ذرا ان کو تو بلا لو جو انگور کی ٹٹی کے پاس دبکی کھڑی ہیں"
( ١٩٠٣ء، بچھڑی ہوئی دلہن، ٧٢ )
٧ - خس کی ٹٹی جو موسم گرما میں دروازوں کے آگے لگائی جاتی ہے اور کمرے میں ٹھنڈک پہنچانے کے لیے اس پر پانی چھڑکتے رہتے ہیں۔
"ٹٹی چھڑکی گئی، اب دوپہر کی صحبت نہایت خوش گوار تھی"
( ١٩٢٤ء، 'اودھ پنچ' لکھنؤ، ٩، ٤:٢٠ )
٨ - بانس کا ٹھاٹر جس پر چراغ رکھ کر روشنی کی جاتی ہے۔
"سڑکیں صاف ستھری اور دوطرفہ ٹٹیوں پر گلاس روشن تھا"
( ١٩١٥ء، 'گلدستہ پنچ، ٩٧ )
٩ - آتشبازی کی دیوار جو بانس کی کھپچیوں سے بنائی جاتی ہے۔
"ٹٹی کی خوشنمائی اس میں ہے کہ تمام یکبارگی سلگ جائے"
( ١٩٠٣ء آتش بازی، ٦٧ )
١٠ - شکار کھیلنے کی آڑ جو شکاری اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔
قصد شکا دل ہے تو آئینہ دیکھیے صیاد کو ضرور ہے ٹٹی شکار کی
( ١٨٥٤ء، گلستان سخن، ٤٤٣ )
١١ - وہ رکاوٹ یا اوٹ جو سپاہی جنگ میں اپنی حفاظت کے لیے اپنے سامنے لگاتے ہیں۔
"مضبوط تختوں کی ٹٹیاں سامنے قائم کی گئیں کہ سپاہی بندوق کی گولی مار سے محفوظ رہیں"
( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم، ٥٧٥:٣ )