چاق

( چاق )
{ چاق }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً ترکی زبان کا لفظ 'چاغ' ہے فارسی میں 'چاق' ماخوذ ہے اور فارسی سے اردو میں آیا اور اصل حالت میں مستعمل ہے۔ ١٦٩٧ء میں "دیوانِ ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چاقوں [چا + قوں (واؤ مجہول)]
١ - تندرست، صحیح، نروگا، تنومند، توانا، فربہ۔
"اگرچہ بچہ چاق ہے تو خون کو مشیمہ کی طرف کو سوتتے ہیں۔"    ( ١٨٩٢ء، میڈیکل جیورس پروڈنس، (ترجمہ)، ٢٠٠ )
٢ - مضبوط، سخت، تگڑا۔
 فلک کج رو کے ہت مہ نو کمان چاق دستا ہے قضا کا تیرے کر بہت ہنر میں طاق دستا ہے    ( سری (بیاض مراثی)،٦٠ )
٣ - تر و تازہ، بحال (طبیعت وغیرہ کے ساتھ مختص)۔
"ہوائے خنک نے دماغ پریشان کو چاق کیا۔"      ( ١٩١٥ء، گلدستۂ پنچ، ١٨٥ )
٤ - چست و چالاک، پھرتیلا؛ (کام یا بات کے) ہر پہلو سے باہوش و باخبر۔
 پیشوائی کو بتان سیم ساق محو بازی شاہد ان چست و چاق      ( ١٩٦٢ء، ہفت کشور، ٢٠ )
٥ - تیار۔
 رسی ٹھار آشہ کماں چاق کر چلا یا لگا تیر تس گھانٹ پر    ( ١٦٥٧ء، گلشن عشق، ٥٨ )
٦ - کمربستہ، مستعد (ساز و سامان سے) لیس۔
 تیرے نغمے ترے مضموں ہیں یہ شہ نائے قلم دم کشی پر ہے سر دست کمربستہ و چاق    ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٢٧٨ )
٧ - مکمل، بھرپور، کامل۔
 ناتوانی کے سبب کپڑے بدن پر ہیں درست چاک سینہ ہو جو سودائے دل اپنا چاق ہو      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٧٤ )
٨ - زیادہ۔
 گر نمک کچھ چاق یا کم ہو گیا پھر تو برپا شور ماتم ہو گیا      ( ١٨٩٩ء، مثنوی نان و نمک، ١١ )