ابریق

( اِبْرِیق )
{ اِب + رِیق }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم جامد ہے، اصلاً فارسی زبان کے لفظ 'آبریز' جوکہ دو الفاظ 'آب' اور 'ریز' سے مرکب ہے، کا معرب ہے۔ اردو میں ١٦٩٣ء کو "وفات نامہ بی بی فاطمہ" کے قلمی نسخے میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : اِبْرِیقوں [اِب + ری + قوں (و مجہول)]
١ - لمبی گردن کا دستے دار لوٹا، آفتابہ، پیالہ، ساغر۔
 لیے ہے طشت زمرد کوئی، کوئی ابریق مؤدبانہ کھڑی ہے ملائکہ کی قطار      ( ١٩٣٥ء، عزیز، صحیفہ ولا، ١٤ )
٢ - شیشہ، قرابہ، صراحی وغیرہ
 ہاں چھیڑ بھی رباب کہ گرم ہے اختلاط حسن مہہ دو ہفتہ و ابریق یک منی      ( ١٩٣٢ء، سیف وسبو، ٢٤٩ )
٣ - پانچ رطل کے برابر پیمانہ، تقریباً ڈیڑھ یا پونے دو سیر کا۔ (رسالہ سالوتر، 83:2 ؛ کلید عطاری، 83)
  • a vessel or water pot
  • with a spout and a handle;  an ewer