ٹکورا

( ٹَکورا )
{ ٹَکو (واؤ مجہول) + را }
( ہندی )

تفصیلات


اصلاً ہندی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں ہندی سے ماخوذ ہے اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے ١٧٦١ء میں "سامی" کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ٹَکورے [ٹَکو (واؤ مجہول) + رے]
جمع   : ٹَکورے [ٹَکو (واؤ مجہول) + رے]
جمع غیر ندائی   : ٹَکوروں [ٹَکو (واؤ مجہول) + روں (واؤ مجہول)]
١ - [ سنگ تراشی ]  پتھر کی سطح کو خصوصاً سل بٹے اور چکی کے پاٹ کو کھردرا بنانے کا چونچ کی شکل کا ہتوڑا جس کی ضرب سے سل کی سطح پر چٹیں اور کھندانے پڑ جائیں، ٹکیا، سل رہا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں)
٢ - نوبت کی آواز، صداے نقارہ، تاشے نقارے اور اسی قسم کے باجوں پر ٹوٹی (چھڑی) کی ہلکی ضرب جو دھیمی آواز نکالنے کو لگائی جائے۔
 ہر ٹکورے پہ ہے پنکھے کی طرح دل ہلتا آج نوبت سی لگا کرنے یہ نوبت پنکھا      ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٣٦١:١ )
٣ - چھوٹی کلہاڑی؛ چٹکی۔ (جامع اللغات؛ نوراللغات)
٤ - چھوٹا کچا آم، کیری۔
"آموں کے درختوں میں ٹکورے اس کثرت سے آجاتے ہیں کہ بار سے ڈالیاں زمیں پر جھک پڑتی ہیں"      ( ١٩٢٧ء، فکر یلیغ، ٩٩ )
٥ - جھونکا، تھپیڑا۔
 ادھر سے یادلیتی ہے ٹکورے اُدھر سے جھاڑ کھاتے ہیں جھکورے      ( ١٧٦١ء، سامی (چمنستان شعراء، ٤١٩) )
  • a fillip
  • tap;  the sound of a drum;  the treble end of the Moorish kettle-drum