چپقلش

( چَپْقَلَش )
{ چَپ + قَلَش }
( فارسی )

تفصیلات


چَپْغُولَش  چَپْقَلَش

فارسی زبان میں لفظ 'چپ غولش' سے ماخوذ اردو میں 'چپقلش' بنا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٥ء میں "دیوان قائم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : چَپْقَلَشیں [چَپ + قَلَشیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : چَپْقَلَشوں [چَپ + قَلَشوں (و مجہول)]
١ - لڑائی، جھگڑا، ہنگامہ۔
 گرفتاران بوبکرؓ و علیؓ اچھی طرح سن لیں کہ ان کی چپقلش نے کام غیروں کا نکالا ہے      ( ١٩٣٧ء، چمنستان، ١٢٤:٧ )
٢ - کشیدگی؛ کشاکش؛ مخالفت (جو اختلاف رائے یا مزاج کی بنا پر ہو) ٹنٹا : قضیہ۔ قضیہ
"حضور نظام میر محبوب علی خان اور مدارالمہام سر وقارالامرا کے درمیان سخت چپقلش تھی۔      ( ١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٣٥٩ )
٣ - تکرار؛ بک بک؛ راز۔
"جو میوہ ان کی باہمی چپقلش سے بچ رہا تھا اسے بہ مشکل تمام وہ . بھٹ تک لائے"    ( ١٩٠١ء، جنگل میں منگل، ١١٣ )
٤ - بحث و مباحثہ؛ رد و کد؛ نوک جھونک۔
"١٨٥٩ء میں کتاب 'رسالہ اسباب بغاوت ہند' چھپ کر آئی . اور انگریزی میں ترجمہ ہو کر کونسل میں پیش ہوئی تو بڑی چپقلش پیدا ہوئی"    ( ١٩٣٨ء، حالات سرسید، ٢٣ )
٥ - جگہ کی تنگی، انبوہ یا بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے گھما گھمی گتھم گتھا یا دھکا پیل۔
"ریل کے کمپارٹمنٹ میں ایسی چپقلش نہ ہو گی جو ان گاڑیوں میں تھی"      ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٣٢٢ )
٦ - (دلِ و دماغ کا) انتشار، الجھن؛ پریشانی؛ فکر وتردد کی کیفیت؛ تذبذب؛ کشمکش۔
"ہمایوں عجیب چپقلش میں تھانہ جائے رفتن نہ پائے ماندن"      ( ١٩١٩ء، واقعات دارالحکومت دہلی، ٣٥:١ )