ٹکر

( ٹَکَّر )
{ ٹَک + کَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


ستکرای  ٹَکَّر

سنسکرت کے اصل لفظ 'ستکرای' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹکر' مستعمل ہے۔ اردو زبان میں اصل معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٦٩ء میں "آخرگشت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : ٹَکَّریں [ٹَک + کَریں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : ٹَکَّروں [ٹَک + کَروں (واؤ مجہول)]
١ - تصادم، دو چیزوں کا ایک دوسرے سے لڑ جانا۔
"سامنے کی خبر نہیں کون آ رہا ہے، ایسی صورت میں مٹھ بھیڑ بھی نہیں ٹکر لگ جایا کرتی ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٨٨:٣ )
٢ - مقابلہ، برابری۔
"مگر ٹکر السے گھاگ سے تھی جس کو جعلسازی ہی میں سات برس کی ہو چکی ہے۔"    ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٦٥:٥ )
٣ - مدمقابل، برابر، ہمسر۔
"خبر جو کچھ ہو میرزا دبیر انیس کی ٹکر ہیں۔"    ( ١٩٠٣ء، چراغ دہلی، ٢٤ )
٤ - سر ٹکرانا۔
 کوچۂ یار سے اٹھوا دیا مجھ وحشی کو ٹکروں سے مری دیوار میں در ہوتا کیا      ( ١٨٩١ء، اشک، معیارنظم، ٧٠ )
٥ - [ مجازا ]  حادثہ، مصیبت، صدمہ
"ضرورت یہ ہے کہ بڑی بڑی ٹکروں اور سخت سخت مصیبتوں کے واسطے تیار ہو۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٢٥ )
٦ - دھکا، صدمہ، ٹھوکر، نقصان، ضرر، ٹوٹا۔(نوراللغات)
٧ - پتھر کی سل کا موٹان کا رخ، پہلو، بغل، لکڑی کے تختے اور شہتیر کے منھ کی تھاپ کے لیے بھی ٹکر بولا جاتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 57:1)
  • striking or knocking (against)
  • running (against)
  • collision
  • impact;  pushing
  • push
  • jostling;  butting
  • the knocking of head against head;  shock
  • concussion
  • blow
  • knock;  damage
  • loss;  encounter;  competition
  • rivalry;  equality
  • resemblance
  • comparison;  rival
  • antagonist
  • match
  • equal