دھکا

( دَھکّا )
{ دَھک + کا }
( سنسکرت )

تفصیلات


دھِک  دَھکّا

سنسکرت سے اردو میں دخیل اس 'دھک' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقہ کیفیت بڑھانے سے 'دھکا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٩٥ء کو "دیپک پتنگ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَھکّے [دھک + کے]
جمع   : دَھکّے [دھک + کے]
جمع غیر ندائی   : دَھکّوں [دَھک +کوں (و مجہول)]
١ - صدمہ (جو ہاتھ یا کندھے کے ریلنے سے پہنچے)، دھکیلنے کا عمل یا کیفیت، ریلا، ٹکر، ہچکولا۔
"وہ سپاہی کو غافل پاکر دبے پاؤں اس کے پاس پہنچ گیا اور ایک ہی دھکے میں زمین پر گرا بندوق کر اس کے ہاتھ سے چھین لی۔"      ( ١٩٨١ء، رزمیہ داستانیں، ٣٧٧ )
٢ - جنبش (بوقت جنسی فعل)۔
 ساتھ ہر دھکے کے اب کون کرے گا نخرے جلد ہونا نہ کہیں یہ فرمائے گا کون      ( ١٨٣٢ء، چرکین، دیوان، ٢١ )
٣ - آفت، حادثہ، بلا۔
"متواتر دھکوں اور ناکامیوں نے ان کی جسمانی قوت کو خراب . کر دیا ہے۔"      ( ١٩٢٧ء، خطبہ صدارت، شاہ سلیمان، ٤٨ )
٤ - صَدر، نقصان، زیاں۔
"تجارتی بائیکاٹ کا دھکا تو بڑی بڑی سلطنتوں اور قوموں کو سرنگوں کر دیتا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامُکھ، ٣٠ )
٥ - بندوق چلانے کا جھٹکا جو بندوقچی کو چھاتی ہر محسوس ہوتا ہے۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 87:8)۔
٦ - [ طبیعات ]  جب کوئی قوت ایک خاص وقت کے لیے ایک جسم پر عمل پیرا ہوتی ہے تو وہ اس میں مقدارِ حرکت (Moment) کی جتنی تبدیلی پیدا کرتی ہے اسے دھکا (Impulse) کہتے ہیں۔ (مادے کے خواص، 51)۔
"قوت اور وقت کے حاصل ضرب Ft کو دھکا (Impluse) کہتے ہیں۔"      ( ١٩٦٥ء، طبیعات، ٩٩ )
  • Shore
  • push
  • knock
  • jostle
  • jolt
  • jog
  • shock
  • impact
  • collision;  a blow or stroke of misfortune
  • or affliction;  loss (in trade)
  • damage