تعطیل

( تَعْطِیل )
{ تَع + طِیل }
( عربی )

تفصیلات


عطل  تَعْطِیل

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے اردو میں سب سے پہلے ١٧٧٢ء کو "انتباہ الطالبین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
جمع   : تَعْطِیلات [تَع + طی + لات]
جمع غیر ندائی   : تَعْطِیلوں [تَع + طی + لوں (و مجہول)]
١ - چھٹی کا دن، چھٹی، رخصت۔
"دسہرے کی تعطیل میں دلی آئے۔"      ( ١٩٠١ء، حیات جاوید، ٣٢ )
٢ - [ فقہ ]  خدا کی صفات سے انکار کرنے کا عقیدہ جس کے پیرووں کو معطلہ کہا جاتا ہے۔
"غرض کہ شرکت اور تعطیل کا مرض اور رسول کی مخالفت کا روگ - یہی منبع اور اصل ہر ایک شر اور خرابی کی جہاں میں ہے۔"      ( ١٨٦٦ء، تہذیب الایمان، ٥٩٨ )
٣ - بیکاری، کام سے خالی رہنا، بیکار ہونا، ناکارہ ہو جانا۔
"داؤد خان کے دماغ کی تعطیل پر جو نکتہ سنجیاں اہل الرائے نے کیں اس کو سن کے میں مسکرا دیتا تھا۔"      ( ١٩٢١ء، خونی شہزادہ )
  • rendering vacant
  • void
  • or un occupied (a place);  rendering useless;  laying waste;  leaving untended or neglected
  • abandonment
  • neglecting;  freeing from work or occupation;  vacation
  • holiday