ٹوٹ

( ٹُوٹ )
{ ٹُوٹ }
( سنسکرت )

تفصیلات


تروٹ  ٹُوٹنا  ٹُوٹ

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر 'ٹوٹنا' سے مشتق حاصل مصدر ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٥٨٢ء میں "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - شکستگی۔
 ٹوٹ نیں کچھ حق سوں دل کی لاب میں سن تو ہے قدسی حدیث اس باب میں      ( ١٧٥٤ء، ریاض غوثیہ، ١٢٩ )
٢ - نقصان، خسارہ، گھاٹا، کمی۔
"ہر آئینہ آزمائش کرتے ہیں ہم تمہارے تئیں اے مومناں . تجارت میں ٹوٹ اور زراعت میں محصول کم ہو"      ( ١٧٧٢ء، شاہ میر، انتباۃ الطالبین، ٦٥ )
٣ - فرق، کسر۔
"عاشق کی بات توڑنے کو اس میں ٹوٹ نہیں عاشق کے دل پر جو گزرتا سو جھوٹ نہیں"      ( ١٦٣٥ء، سب رس، ١٥٩ )
٤ - دوستوں میں لڑائی، پھوٹ، ناراضگی؛ وہ عبارت یا رہا ہوا فقرہ جو تصحیح کے وقت بعد میں حاشیے پر چڑھا دیتے ہیں۔ (نوراللغات)
  • breaking;  break
  • fracture;  breach
  • severance
  • misunderstanding
  • coolness (between friends);  harm loss;  deficiency
  • scarcity
  • failure;  an omission in the text of a book supplied in the margin