احتباس

( اِحْتِباس )
{ اِح + تِباس }
( عربی )

تفصیلات


حبس  حَبْس  اِحْتِباس

عربی زبان سے اسم مشتق ہے، ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٨٧٤ء کو انیس کے مجموعے "مراثی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - (ہوا بند ہونے سے) دم گھٹنے کی کیفیت، حبس، امس، گھٹن، گھمس (ہوا کا) بند ہونا اور اس سے دم گھٹنے لگا۔
"گرمی کی کچھ حد نہیں، ہوا نہ ہو تو ٹٹیاں کیا کریں اور بھی احتباس بڑھ جاتا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، اتالیق خطوط نویسی، ٨٦ )
٢ - سانس، ریاح، پیشاب یا خون وغیرہ کے جسم میں رک جانے اور نہ نکلنے کی کیفیت، خصوصاً حیض یا نفاس وغیرہ بند ہونے کی صورت حال۔
"ایک صاحب جو مسجد میں رہتے تھے، اتفاقاً سوئے ہضم اور احتباس کی بیماری میں مبتلا ہوئے۔"    ( ١٩٣٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٢٠، ٦:٢٢ )
٣ - ہوا، دخان، بھاپ یا گیس کے کسی محدود مقام میں گھر جانے کی کیفیت۔
"اس میں دخان کا احتباس ہوتا ہے۔"    ( ١٩٢٥ء، حکمۃ الاشراق، ٣٧٠ )
٤ - [ نفسیات ]  کسی احساس یا تکلیف دہ یاد کو عمداً حلقہ شعور سے خارج کر دینا، بھلا دینا۔
"خواب خرامیوں کے عرصے بھی احتباس کی میکانیت موثر رہتی ہے۔"      ( ١٩٤٥ء، نفسیات جنون، ٧٠ )