پیپا

( پِیپا )
{ پی + پا }
( انگریزی )

تفصیلات


Pipa  پِیپا

انگریزی سے اردو میں داخل ہوا اور عربی رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣٨ء کو "ستہ شمسیہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پِیپے [پی + پے]
جمع   : پِیپے [پی + پے]
جمع غیر ندائی   : پِیپوں [پی + پوں (و مجہول)]
١ - جست کی چادر نیز ٹین کا بنا ہوا گول مستطیل یا چوکور شکل کا برتن جس میں گھی تیل اور دوسری اشیاء رکھی جاتی ہیں، کنستر۔
 ایڑی چوٹی کا یہ غازی سارا زور لگائیں تیل کے پیپے اور کنستر بھر بھر رکھتے جائیں      ( ١٩٦٢ء، ہفت کشور، ١٤٣ )
٢ - لکڑی کی پٹیوں سےت یار شدہ گول(ڈھول سے مشابہ) شراب کا مٹکا جس میں ایک سو پانچ گیلن شراب آتی ہے دوسرے کاموں میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
"پیپوں کی لکڑی میں اہم تر وہ ہے جس سے شراب کے خُم بنتے ہیں۔"      ( ١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ١٤٥ )
٣ - پانی یا بیئر (شراب) کا مٹکا۔
"ایک لکڑی کا پیپا ہے اس میں پیندے کے قریب پہلو میں ایک ٹونٹی لگی ہوتی ہے۔"      ( ١٨٨٩ء، مبادی علوم، ٤٨ )
٤ - شکر وغیرہ کی مقدار کا پیمانہ نیز اس کے رکھنے کا ظرف۔
"روزانہ دس ہزار یا پندرہ ہزار پیپے شکر تیار ہوتی ہے۔"      ( ١٩٣٧ء، اصولِ معاشیات، ٧٨:١ )
٥ - سیال چیزوں کی مقدار کا پیمانہ یا ان کے رکھنے کا ظرف۔
"ایک پیپا شیرہ لے کر اس کو منہ بند کر کے سال گزرنے دو - سرکہ تیار ہے۔"      ( ١٩٣٨ء، صنعت و حرفت، ٤٢ )
٦ - [ مجازا ]  بہت موٹا؛ بہت شراب پینے والا۔