چسکی

( چُسْکی )
{ چُس + کی }
( سنسکرت )

تفصیلات


چوش+ک+اکا  چُسْکی

سنسکرت زبان کا لفظ 'چوش + ک + اکا' سے ماخوذ اردو میں چُسکی' بنا اور بوطر اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٥١ء میں "نوادرالالفاظ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث )
جمع   : چُسْکِیاں [چُس + کِیاں]
جمع غیر ندائی   : چُسْکِیوں [چُس + کِیوں (و مجہول)]
١ - گھونٹ، جرعہ، کش۔
"خوب پیے ہوئے تھے اس پر بھی بار بار جیب سے فلاسک نکال کر پیٹھ موڑ کر چسکی لگائے جارہے تھے"      ( ١٩٦٢ء، معصومہ، ٤٢ )
٢ - گھونٹ گھونٹ پینے کا عمل؛ مزہ لے لے کر پینا۔
 چسکی لی تو بات ہے کل کی آنکھ میں میری گھس گئی نلکی      ( ١٩٨٥ء، پھول کھلے ہیں رنگ برنگے، ٤٠ )
٣ - ذراسی افیون جو افیمی خلاف وقت کھا پی لیتے ہیں۔
"دوسری چیز افیم تھی، وہ اس کی صبح شام چسکی ضرور لگاتے"      ( ١٩٥٤ء، ہمار گاؤں، ١٥٥ )