پیچیدہ

( پیچِیدَہ )
{ پے + چی + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


پیچیدن  پیچِیدَہ

فارسی مصدر 'پیچیدن' سے صیفہ ماضی مطلق واحد غائب 'پیچید' کے ساتھ لاحقۂ حالیہ تمام 'ہ' ملنے سے پیچیدہ' حاصل ہوا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٨٤ء کو "دیوانِ درد" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بل کھایا ہوا، مُڑا ہوا، پیچاں، لپٹا ہوا۔
 پیچیدہ تھیں جابجا وہ بیلیں دل جتنے ہوں کا کُلوں میں لے لیں      ( ١٨٨٧ء، ترانۂ شوق، ٢٨ )
٢ - پیچ در پیچ، کَٹِھن، دقت طلب، اُلجھا ہوا۔
"اخلاق کے اکثر مرحلے بڑے پیچدہ ہوتے ہیں"      ( ١٩٥٤ء، اکبر نامہ، ١٢٥ )
٣ - مبہم، گنجلگ، گول مول۔
"بعض والیانِ ملک نے تو صاف انکاری جواب دیا، بعض نے پیچیدہ اور گومگو مصلحت آمیز جواب دئیے"      ( ١٩٢٦ء، حیاتِ فریاد، ٦٠ )
٤ - دستوار گزار، ٹیڑھا میڑھا۔
"سب فوج ایک قطار میں اس پیچیدہ راستے سے ہو کر چل پڑی"      ( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم، ٢٧٨:٢ )
٥ - ادق، مشکل۔
"فلسفے کے پیچید اور دقیق مسائل اس طرح آسان کر دئیے کہ افلاطون اور ارسطو کا سارا بھرم کھل گیا"      ( ١٩٠٢ء، علم الکلام، ٧٠:١ )
٦ - لپٹا ہوا، تہ کیا ہوا۔
"اون کے عقب دو صاحب، پھر صاحب پولیٹکل اجنٹ بھوپال، پھر ایک افسر نشان پیچیدہ لیے ہوئے پھر میں"      ( ١٨٧٢ء، تاریخ ریاست بھوپال، ٤٤:٣ )
٧ - پیچ دار، الجھا ہوا۔
انسانی جسم بھاپ کے انجن سے مشابہت رکھتا ہے اگرچہ وہ انجن سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مکمل ہے"      ( ١٩٤١ء، ہماری غذا، ٤ )
  • twisted
  • coiled
  • complicated;  intricate
  • difficult