پیچ و تاب

( پیچ و تاب )
{ پے + چو (و مجہول) + تاب }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی اسم 'پیچ' بطور معطوف الیہ کے ساتھ 'و' بطور حرف عطف لگا کر فارسی مصدر 'تابیدن' سے حاصل مصدر 'تاب' بطور معطوف ملنے سے مرکب عطفی بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشنِ عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - فکر، اندیشہ، تشویش، تردد۔
 اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٨٩ )
٢ - ہل، خم۔
 دیکھا نہ ہے یہ رشک و حسد وہ بلا کہ آج سنبل کو تیری زلف کا سا پیچ و تاب تھا      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٢٣ )
٣ - اضطراب، بے قراری، بے چینی۔
"انسان کیونکر خیالات . کے اس طلسم پیچ و تاب کا ملاحظہ کرتا ہے . جو اس کے اندر ہمدردیاں پیدا کرتی ہیں"      ( ١٩٦٨ء، مغربی شعریات، ٥١ )
٤ - غم و غصہ، قہرو غضب۔
 مرا دل پاک ہے ازبس ولی زنگِ کدورت سوں ہوا جیوں جوہر آئینہ مخفی پیچ و تاب اس کا      ( ١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٢٠ )
٥ - کش مکش، شش و پنج۔
"درزی اس پیچ و تاب میں تھا کہ اتنے میں منصوری آیا اور کہا کہ یہ بنڈل اٹھا لو"      ( ١٨٩١ء، حاجی بابا اصفہانی، ٣٣٩ )
٦ - خم و چم، معشوقانہ خرام۔
 تعجب ہے یہ پیچ و تاب کیوں کر اس سے اٹھتے ہیں ترے موے مباں میں تو رگِ گل کی نزاکت ہے      ( ١٨٤٣ء، دیوانِ رند، ٤٨٤:٢ )
  • annoyance;  vexation
  • restless;  writhing