تلاشی

( تَلاشی )
{ تَلا + شی }

تفصیلات


تلاشیدن  تَلاش  تَلاشی

فارسی زبان کے مصدر 'تلاشیدن' سے حاصل مصدر 'تلاش' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٥٥ء کو یقین کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع   : تَلاشِیاں [تَلا + شِیاں]
جمع غیر ندائی   : تَلاشِیوں [تَلا + شِیوں (و مجہول)]
١ - تلاش کرنے والا، ڈھونڈنے والا، متلاشی۔
 تلاشی تھا ہر طرف بہر شکار ہرن اس میں آیا نظر ایک بار      ( ١٨٠٣ء، بہار دانش، طیش، ١٥ )
٢ - طالب، آرزو مند۔
 نے بت کدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٣٢٠ )
اسم مجرد
جمع   : تَلاشِیاں [تَلا + شِیاں]
جمع غیر ندائی   : تَلاشِیوں [تَلا + شِیوں (و مجہول)]
١ - کسی پوشیدہ یا گم شدہ چیز کی جستجو میں جھاڑا لینا، پڑتال، دیکھ بھال۔
"صرف قید اور تلاشی سے بری کیے گئے تھے۔"      ( ١٩٣٠ء، شخصی قانون بین الاقوام، ٤٣٠ )
٢ - ڈھونڈنا۔
"میری یہ رائے ہے کہ اس کی تلاشی کو ایک محکمہ رشوت ستانی کا علیحدہ کیا جاوے۔"      ( ١٨٨٠ء، مرقع تہذیب )
٣ - مال مسروقہ یا چھپائی ہوئی چیز حاصل کرنے کے لیے کسی شخص کی جیبیں وغیرہ ٹٹولنا، جامہ تلاشی، جھاڑا۔
 کون مہمان ہو کے آئے گا یوں تلاشی جو دے کے جائے گا    ( ١٩٠٥ء، داغ، فریاد داغ، ١١٤ )
٤ - [ قانون ] چوری کا مال یا خلاف قانون شے برآمد کرنے کے لیے کسی کے مکان کی پڑتال کرنا، خانہ تلاشی۔
"شیخ دھومی کے ہاں ہوئی چوری، تلاشی ان کے ہاں بھی ہوئی۔"    ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٨٤ )
٥ - [ قانون ] کسی شخص کے لیے مکان کی پڑتال یا علاقے میں جستجو۔ (جامع اللغات)
  • searching the person
  • property or house (of a person
  • for stolen property or for smuggled goods)