اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - تھونی، کھمبا، روک، اڑواڑ۔ (نوراللغات؛ پلیٹس)
٢ - پایہ وغیرہ جس پر کوئی چیز ٹک سکے، سہارا
"ہر کرسی کے چاروں کونوں پر چار ٹیکیں تھیں"
( ١٩٥١ء، کتاب مقدس، ٣٣ )
٣ - [ مجازا ] پستی، سہارا۔
"مسلمانوں کی کوئی ٹیک باقی نہ رہی"
( ١٩٤١ء، الف لیلہ و لیلہ، ١٧٣:٣ )
٤ - آبرو، بھرم، بات۔
چھیڑ کے بدگمانیاں اپنی ہی رکھوں ٹیک میں لاکھ نہیں نہیں کریں، ان کی نہ مانوں ایک میں
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم | خیال، ٣٤ )
٥ - استحکام، اتحاد۔
سب مل کر ہوتے نہیں ایک اپنے ملک کی رکھ لیں ٹیک
( ١٩٢٦ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١١، ٥:٢ )
٦ - عہد، قسم، وعدہ۔
"وہی پرماتما جس نے اب تک یہ ٹیک نباہی اب بھی تمہارا پرن نبھائے گا"
( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم بتیسی، ٦٦:١ )
٧ - استھائی، انترا، گیت کا وہ ٹکڑا جو بار بار کہا جائے۔ (فرہنگ آصفیہ)
٨ - خدمت، کام۔
"گھر میں جھاڑو لگایا، چولھا جلایا اور کنوئیں سے پانی لانے چلی، اس کی ٹیک پوری ہو گئی تھی"
( ١٩٣٦ء، پریم چند، خاک پروانہ، ١٩٥ )
٩ - آڑ، ضد۔
تنک مزاج ہیں مگر سرشت ان کی نیک ہے نہ ضد کہو نہ ہٹ کہو ذری سی ان میں ٹیک ہے
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ٢١ )
١٠ - کُشتی کا ایک داؤ۔
"داہنے ہاتھ سے سیدھا کاٹ مار کر بائیں ٹیک داہنی ٹیک دے کر اندر کے چکر سے سیدھا کاٹ مارے"
( ١٨٩٨ء، فوانین حرب و ضرب، ٣٨ )
١١ - ٹیلا، پہاڑی۔
کیا ٹیک مدن کا اونچ لگتا ہے مجے رہے پاؤں سڑی پرت کا چڑتے چڑتے
( ١٦٧٢ء، کلیات شاہی، ١٧٠ )
١٢ - لوہے کا بنا ہوا موٹا چوکھٹا جو بڑے منھ کے چولھے پر بطور سہارا رکھا جاتا ہے تاکہ ہنڈیا گرنہ جائے۔
"بوجھل ہنڈیا کے رکھنے سے ٹیک لچک نہ کھائے"
( ١٩٠٦ء، نعمت خانہ، ٦ )