ٹیک

( ٹیک )
{ ٹیک (یائے مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


ترایا  ٹیکنا  ٹیک

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر 'ٹیکنا' سے مشتق حاصل مصدر ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٦٧٢ء میں "کلیات شاہی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : ٹیکیں [ٹے + کیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : ٹیکوں [ٹے + کوں (واؤ مجہول)]
١ - تھونی، کھمبا، روک، اڑواڑ۔ (نوراللغات؛ پلیٹس)
٢ - پایہ وغیرہ جس پر کوئی چیز ٹک سکے، سہارا
"ہر کرسی کے چاروں کونوں پر چار ٹیکیں تھیں"    ( ١٩٥١ء، کتاب مقدس، ٣٣ )
٣ - [ مجازا ] پستی، سہارا۔
"مسلمانوں کی کوئی ٹیک باقی نہ رہی"    ( ١٩٤١ء، الف لیلہ و لیلہ، ١٧٣:٣ )
٤ - آبرو، بھرم، بات۔
 چھیڑ کے بدگمانیاں اپنی ہی رکھوں ٹیک میں لاکھ نہیں نہیں کریں، ان کی نہ مانوں ایک میں    ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم | خیال، ٣٤ )
٥ - استحکام، اتحاد۔
 سب مل کر ہوتے نہیں ایک اپنے ملک کی رکھ لیں ٹیک    ( ١٩٢٦ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١١، ٥:٢ )
٦ - عہد، قسم، وعدہ۔
"وہی پرماتما جس نے اب تک یہ ٹیک نباہی اب بھی تمہارا پرن نبھائے گا"    ( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم بتیسی، ٦٦:١ )
٧ - استھائی، انترا، گیت کا وہ ٹکڑا جو بار بار کہا جائے۔ (فرہنگ آصفیہ)
٨ - خدمت، کام۔
"گھر میں جھاڑو لگایا، چولھا جلایا اور کنوئیں سے پانی لانے چلی، اس کی ٹیک پوری ہو گئی تھی"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، خاک پروانہ، ١٩٥ )
٩ - آڑ، ضد۔
 تنک مزاج ہیں مگر سرشت ان کی نیک ہے نہ ضد کہو نہ ہٹ کہو ذری سی ان میں ٹیک ہے      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ٢١ )
١٠ - کُشتی کا ایک داؤ۔
"داہنے ہاتھ سے سیدھا کاٹ مار کر بائیں ٹیک داہنی ٹیک دے کر اندر کے چکر سے سیدھا کاٹ مارے"      ( ١٨٩٨ء، فوانین حرب و ضرب، ٣٨ )
١١ - ٹیلا، پہاڑی۔
 کیا ٹیک مدن کا اونچ لگتا ہے مجے رہے پاؤں سڑی پرت کا چڑتے چڑتے      ( ١٦٧٢ء، کلیات شاہی، ١٧٠ )
١٢ - لوہے کا بنا ہوا موٹا چوکھٹا جو بڑے منھ کے چولھے پر بطور سہارا رکھا جاتا ہے تاکہ ہنڈیا گرنہ جائے۔
"بوجھل ہنڈیا کے رکھنے سے ٹیک لچک نہ کھائے"      ( ١٩٠٦ء، نعمت خانہ، ٦ )
  • prop
  • pillar
  • support;  promise
  • vow;  determination
  • resolve;  the burthen or refrain (of a song);  mass
  • pile
  • heap
  • hillock;  an ornament (as a gold patch)
  • worn on the neck or head;  a top-knot;  a drop
  • line or stream (of blood)