عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب میں حاصل مصدر 'ربع' سے اسم فاعل 'رباع' کے ساتھ لاحقۂ صفت لگایا ہے اردو میں اپنے اصل مفہوم کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم صفت مستعمل ہے سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : رُباعِیوں [رُبا + عِیوں (و مجہول)]
١ - چار سے مرکب، چار اجزا والا۔
"امونیا کا کوئی دوسرا رُباعی نمک استعمال کیا جاسکتا ہے"
( ١٩٤١ء، تجربی فعلیات (ترجمہ)، ٥٩ )
٢ - [ عروض ] بحرکے مقررہ چوبیس اوزان میں سے کسی ایک یا زیادہ (تاچہار) وزن میں کہی ہوئی چار مصرعوں والی نظم جس کے پہلے دوسرے اور چوتھے مصرع میں قافیہ ہو (تیسرے میں ہو یا نہ ہو)۔
"شاعری میں اگر فرقہ بندی کی جائے تو رباعی، قصیدہ، غزل وغیرہ خواص کی پسند ہیں۔"
( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ٤٦ )