تمہید

( تَمْہِید )
{ تَم + ہِید }
( عربی )

تفصیلات


مہد  مَہْد  تَمْہِید

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفعیل سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے اردو میں عربی زبان سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٧٢ء کو "مرآۃ الغیب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَمْہیدیں [تَم + ہی + دیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تَمْہِیدوں [تَم + ہی + دوں (و مجہول)]
١ - بچھونا، بچھانا، فرش بچھانا۔ (فرہنگ آصفیہ؛ اردو قانونی ڈکشنری)
٢ - کسی بات کی ابتدا یا تقریب کا آغاز
"آج کی تمہید طویل اس لیے تھی کل اس واقعہ پر ایک غائر نظر ڈال سکیں۔      ( ١٩١٣ء، مضامین ابوالکلام آزاد، ١٢٣ )
٣ - (کسی تقریر یا تحریر کا) ابتدائی حصہ جس میں اصل موضوع پر اظہار خیال سے پہلے کچھ کہا جائے، دیباچہ، مقدمہ، تعارف، خطبۂ کتاب۔
"حقیقت یہ ہے کہ اگلے تین حصے اسی حصے کے دیباچے اور تمہید تھے"      ( ١٩٠٧ء، شعرالعجم، ١:٤ )
٤ - [ مجازا ] آغاز، ابتداء۔
 ہماری بے خودی تمہید سے تیری نمائش کی مٹا کر نقش ہم اپنا ترا نقشہ جماتے ہیں    ( ١٩٥٩ء، ذکر حبیب، ٢٢ )
٥ - پیش خیمہ۔
"یہ مقدمے درحقیقت تمہید ہیں اس مذہبی تنافر کے دور کرنے کی . جو دونوں قوموں کے دلوں میں روز بروز بڑھتا جاتا ہے"    ( ١٩٠١ء، حیات جاوید، ١١١ )
٦ - تربیت، تنظیم، استواری، بنیاد رکھنا۔
"مسلمانوں کی تمہید سلطنت کے لیے ایک زمانہ بسر کرنا پڑا"١٩٠٤ء، مقدمہ ابن خلدون (ترجمہ)، ٢٠:٢