چمکنا

( چَمَکْنا )
{ چَمَک + نا }
( ہندی )

تفصیلات


چَمَک  چَمَکْنا

ہندی زبان سے ماخوذ لفظ'چمک' کے ساتھ 'نا' لاحقۂ مصدر لگانے سے 'چمکنا' بطور فعل مستعمل ہے۔ ١٧٩١ء کو "حسرت (جعفر علی)، طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - چمکانا کا لازم، روشنی دینا، روشن ہونا، چگمگانا، منور ہونا۔
 آسمان کے نظر آتے نہیں تارے دن کو تیری جوتی کے چمکتے ہیں تارے دن کو      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ١١٧:٢ )
٢ - نام پانا، فروغ پانا، ترقی کرنا، مشہور ہونا۔
"اگر اس کے نسخے تیری دوکان پر آیا کریں گے تو تیری دکان خوب چمک جائے گی۔"      ( ١٩٢٨ء، سلیم، افادات سلیم، ٦٩ )
٣ - جھلکی دکھانا، شان و شوکت سے نمودار ہونا۔
 مہر جب حسن دل افروز صنم کا چمکا مثل خورشید دیا ذرے کو چمکا چمکا      ( ١٨٥٨ء، سحر (نواب علی)، بیاض سحر، ١٤ )
٤ - شدید اختلاف رائے ہونا، جنگ ہونا، جھگڑا ہونا، تنازع پیدا ہونا۔
"روم اور روس میں خوب چمک رہی ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ٥٣٤:٢ )
٥ - حملہ آور ہونا (پریا پہ کے ساتھ)۔
"یہ پاتے ہی اہل دمشق نکال کر تلواریں اسماعلیہ پر چمک گئے۔"      ( ١٨٤٧ء، تاریخ ابوالفدا (ترجمہ)، ٢١٦:٢ )
٦ - بگڑنا، خفا ہونا، جھنجھلانا۔
"چھیڑے کوئی چمکو کسی پر۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ٥٣٤:٢ )
٧ - ڈر جانا، جھجکنا، خوف کھا جانا۔
 وہ شب کو نشے میں چمکے جو عکس کا کل سے بلا بلا کے بٹھاتے ہیں اپنے پاس مجھے      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٢٣٩ )
٨ - مسخرے پن کی حرکتیں کرنا، اچھل کود سے کام لینا۔
 وہ بے قرار وہ چین ایسے گرما گرم چمک کے برق صفت جا رہے کہیں کے کہیں      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٣ )
٩ - گھوڑے کا کسی چیز سے ڈر کر اچک پڑنا، خوف زدہ ہونا، بدحواس ہونا۔
"گھوڑا اس طرح چمکا کہ یہ پشت سے گرا۔"      ( ١٩٠٥ء، یادگار دہلی، ١٩ )