چنتا

( چِنْتا )
{ چِن + تا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چنتا  چِنْتا

سنسکرت سے اردو میں اصل معنی اور اصل حالت کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - فکر، تردد، پریشانی۔
"کیا بات ہے بابا? کیا چنتا ہے تیرے من کو۔"      ( ١٩٨٤ء، سفرمینا، ٢٠٢ )
٢ - خوف، ڈر، اندیشہ۔
"بعد مغرب رائے سینا کے اسلامی جلسہ میں تقریر کی، مضمون کا عنوان دہر کی چنتا، تھا۔"      ( ١٩٢٤ء، روزنامچہ حسن نظامی، ٣٥ )
٣ - دھیان، خیال۔
 رکھے دل میں کسی کو چنتا گلے میں ڈالی برہ کے کنٹھا درس کی خاطر تمھاری منتا بھکھارن اپنا برن بنایا      ( ١٧١٨ء، دیوان آبرو، ٢ )