احتراق

( اِحْتِراق )
{ اِح + تِراق (کسرہ ت مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


حرق  اِحْتِراق

عربی زبان سے اسم مشتق ہے، ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٥ء کو "گلزار عشق" کے قلمی نسخے میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - سوختہ ہونے یا جل جانے کی کیفیت یا عمل، جلنا۔
 احتراق طور نے کھولے سب اسرار نہاں اس سے پہلے تو کتاب حسن بے تفسیر تھی      ( ١٩٣٩ء، شباب تخیل، ٤٦ )
٢ - سوزش، جلن، بھڑک۔
"کرہ ارض بھی انسانی معدہ ہے جس میں کبھی احتراق ہوتا ہے۔"      ( ١٩٣٤ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٩، ٢، ٦ )
٣ - [ طب ]  حرارت وحدت کے باعث کسی خلط کے اجزاے لطیف و دقیق کا تحلیل و فنا ہونا اور مابقی کا اس قدر کثیف ہو جانا کہ وہ خلط اپنی جنس سے خارج ہو جائے (اور سوداے غیر طبعی بن جائے) نہ یہ کہ جل کر خاکستر ہو جائے، خلط کی جنس کا استحالہ (بیشتر خلط یا خون وغیرہ کے ساتھ مستعمل)۔
"عفونت، تخمیر اور اشتعال و احتراق میں محض استحالے کی رفتار کا فرق و امتیاز ہے۔"      ( ١٩٣٣ء، بخاروں کا اصول علاج، ٢٣ )
٤ - [ نجوم ]  چاند کے علاوہ کسی سیارے کا سورج کے ساتھ کسی برج میں ایک درجے اور ایک دقیقے میں اجتماع (جس سے اس سیارے کی شعاعیں چھپ جاتی ہیں)۔
"عطارد اور زہرہ کا قران ہوا ہے اور یہ دونوں بمقابلہ شمس کے احتراق میں ہیں۔"
  • burning
  • conflagration;  strong desire;  vehemence ardour