آشفتگی

( آشُفْتَگی )
{ آ + شُف + تَگی }
( فارسی )

تفصیلات


آشفتن  آشُفْتَگی

فارسی مصدر 'آشفتن' سے علامت مصدر 'ن' گرا کر 'گی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'آشفتگی' بنا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٧ء میں ولی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : آشُفْتَگِیاں [آ + شُف + تَگِیاں]
جمع غیر ندائی   : آشُفْتَگِیوں [آ + شُف + تَگِیوں (و مجہول)]
١ - پریشانی، حیرانی، سراسیمگی ۔
 سبب آشفتگئ دل کا نہیں کھلتا ہے شاید الجھا ہے تری زلف گرہ گیر کے ساتھ      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٥٥ )
٢ - بکھراہونے کی کیفیت، پراگندگی، انتشار۔
 آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا    ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٤٣ )
٣ - بدنظمی، ابتری۔
"بباعث سرکشی تمھارے سرداران و آشفتگی اندرونی کے . سرکار بھوٹان کمزور ہوگئی ہے۔"    ( ١٨٦٤ء، عہدنامہ جات (ترجمہ)، ٣٣٢:٧ )
٤ - فریفتگی، عاشقی، دیوانگی (فرہنگ آصفیہ، 174:1)
 وائے خود رفتگی تری ناداں ہائے آشفتگی تری ناداں      ( ١٨٢٩ء، قصہ فرہاد و شیریں، ٤٠ )
٥ - برہمی، غصہ۔
"نازنین کا چہرہ سرخ ہو گیا، نہایت آشفتگی کے ساتھ بولی، 'اے تمھاری بھی اتنی مجال ہوئی کہ مجھے زبردستی لے جاؤ گی۔"      ( ١٩١٤ء، حسن کا ڈاکو، ٦ )
  • حَیرانی
  • وَارَفْتَگی
  • مُرَتَّبْ
  • بے اِعتِنائی
  • Distraction
  • perturbation
  • uneasiness;  misery