توازن

( تَوازُن )
{ تَوا + زُن }
( عربی )

تفصیلات


وزن  وَزْن  تَوازُن

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفاعل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٩١٠ء کو "معرکۂ مذہب و سائنس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - (خیال یا دماغ وغیرہ کی) ہمواری، استواری۔
"شریک زندگی کی والہانہ محبت اور وفادارانہ دل جوئی نے میرے دماغی توازن کو اتنا سنبھالے رکھا کہ میں سخت سے سخت امتحان میں کامیاب رہا۔"    ( ١٩٣٣ء، ترانۂ یگانہ، ٢ )
٢ - ہموزن ہونا۔ (حسابات یا کسی شے کی) متناسب برابری یا مساوات وغیرہ۔
"توازن مایعات فن مناظر و مرایا پر جو کثیرالتعداد کتابیں انھوں نے لکھی ہیں۔"    ( ١٩١٠ء، معرکۂ مذہب و سائنس، ١٦٣ )
٣ - تناسب، برابری، متناسب ہونا۔
"رسمی تناسب میں توازن بالکل متشاکل نہیں بلکہ کم و بیش متشاکل ہوتا ہے۔"    ( ١٩٦٩ء، فن ادارت، ٢٠٩ )
٤ - [ موسیقی ]  ٹھہراؤ، رکاؤ (آواز کا)۔
"دھن کی صوری خصوصیات یعنی توازن تجسیم و تشکیل اور لہجہ پیدا ہوا ہے۔"      ( ١٩٨١ء، ہماری موسیقی، ١٧٨ )
  • balance
  • counter balance