توپ

( توپ )
{ توپ (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم ہے اردو میں فارسی زبان سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ آیا اردو میں سب سے پہلے ١٧١٩ء کو "جن نامہ عالم علی خان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم آلہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : توپیں [تو (و مجہول) + پیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : توپوں [تو (و مجہول) + پوں (و مجہول)]
١ - ایک آلۂ جنگ جس میں گولا بارود بھر کر چلایا جاتا ہے اس کی نال لمبائی اور گولائی میں بندوق کی نال کے مقابلے میں بہت بڑی ہوتی ہے۔
 سر ہو رہی ہیں توپیں، بندوقیں چھٹ رہی ہیں نور و سرور شادی گھر گھر ہے آشکارا      ( ١٩١٨ء، سحر (سراج میرخان)، بیاض سحر، ١٠٣ )
٢ - [ مجازا ]  بہت موٹا آدمی، پھپس آدمی یا عورت۔
"توپ کی توپ اکھاڑے میں پڑے اینڈ رہے ہیں۔"      ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٦٦ )
  • a gun
  • cannon
  • field-piece;  mortar
  • howitzer;  (fig.) a fat or corpulent person;  heap
  • pile;  cluster;  a Buddhist monument
  • a tumulus erected over a sacred spot;  a cluster of trees
  • a grove
  • plantation
  • garden