آشنا

( آشْنا )
{ آش + نا }
( فارسی )

تفصیلات


یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو زبان میں مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : آشْنائیں [آش + نا + میں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آشْناؤں [آش + نا + اوں (و مجہول)]
١ - دوست، رفیق، ساتھی۔
 روز تم کن صحبتوں میں اپنا بہلاتے ہو دل یہ تمھارے مہرباں ہیں یہ تمھارے آشنا      ( ١٩١٠ء، جذبات نادر، ٢٥ )
٢ - وہ شخص جو روشناس ہو، جانا پہچانا، جس سے شناسائی ہو۔
 راہ سفر میں کوئی مرا آشنا نہیں حر کے سوا کسی کو بھی پہچانتا نہیں      ( ١٩١٢ء، شمیم، مراثی (قلمی نسخہ)، ١٦ )
٣ - اگاہ، باخبر، واقف۔
"عرب تہذیب و تمدن سے آشنا تھے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٢٠٥:٢ )
٤ - مانوس۔
"اگر کوئی دفعتۃ آپ کو دیکھتا تو مرعوب ہو جاتا لیکن جیسے جیسے آشنا ہوتا جاتا آپ سے محبت کرنے لگتا۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ١٨٩:٢ )
٥ - خواہاں، طالب۔
 مفلس سے یہ کب ملاتی ہے آنکھ دخت رز آشنا ہے زر کی      ( ١٩١١ء، تسلیم، دفترخیال، ١٥٥ )
٦ - وہ مرد، عورت جن کا باہم ناجائز تعلق ہو۔
"میرے ہی پلنگ پر لیٹے لیٹے آشنا نگوڑی کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔"      ( ١٩١٦ء، اتالیق بی بی، ١٠ )
٧ - عزیز قریب، یگانہ، اپنا، بیگانہ کی ضد۔
 سیر کی جا ہے کوچہ ہستی غیر بھی آشنا نکلتا ہے      ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٢٧٥:١ )
٨ - مائل (کسی چیز کو) چھوتا ہوا، مَس۔
"دونوں گھٹنے آشنا بزمین ہوئے"۔      ( ١٩٠٨ء، آفتاب شجاعت، ٥/١ : ٥٤٣ )
٩ - پیراک، پیرنے والا، شناور۔
 یہ تیغ تیز موج بھی سیل فنا بھی ہے دریائے خوں میں غرق بھی ہے آشنا بھی ہے      ( ١٩٦٣ء، مرثیہ فیض بھرتپوری، ٩ )
  • اجنبی
  • ناواقف