پیوستہ

( پَیوَسْتَہ )
{ پَے (ی لین) + وَس + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


پیوستن  پَیوَسْتَہ

فارسی مصدر 'پیوستن' سے صفیہ ماضی مطلق واحد غائب 'پیوست' کے ساتھ لاحقہ حالیہ تمام 'ہ' ملنے سے 'پیوستہ' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٣٣ء کو "دیوانِ آبرو" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - ملا ہوا، جڑا ہوا، چپکا ہوا، بلا فاصلہ متصل۔
"وہ کڑیاں جو ان دونوں کو وابستہ پیوستہ رکھتی ہیں آہنی زنجیریں نہیں ہیں"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ٣٠٤ )
٢ - بیٹھا ہوا، گڑا ہوا، اس طرح ٹھسا ہوا کہ ایک جان ہو۔
 تیرِ غم شہ سینے میں پیوستہ ہے ایک ایک کا دل درد سے وابستہ ہے      ( ١٨٧٤ء، انیس، رباعیات، ١٢٣ )
٣ - مسلسل لگاتار۔
"اصلاح جستہ جستہ ہوتی ہے۔ پیوستہ نہیں ہوتی۔"      ( ١٩٤٠ء، دستور الاصلاح، ٤٣ )
٤ - ہمیشہ، مدام، سدا۔
 پیوستہ منکسر ہیں وہ جو ارجمند ہیں انتی فروتنی بھی ہے جتنی بلند ہیں      ( ١٨٧٤ء، انیس، ٣٦٨:١ )
٥ - گذشتہ، سابق کا (زمانہ وغیرہ)
"انہیں عدم تنوع کی وجہ سے پیوستہ ہنگامہ آرائیوں کی صدائے بازگشت کہا جا سکتا ہے"      ( ١٩٢٩ء، تاریخ نثر اردو، ٣٤٥:١ )
٦ - (سال کے ساتھ) گذشتہ سال سے پیشتر کا (سال)۔
"سال پیوستہ . سے ہنراکسلنسی لارڈ کرزن واردِ مملکت آصفیہ ہوئے"      ( ١٩٠٤ء، مضامین محفوظ علی، ١ )