پیندا

( پینْدا )
{ پیں (ی مجہول) + دا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پرانت+کہ  پینْدا

سنسکرت میں لفظ 'پرانت + کہ' سے اردو میں ماخوذ 'پیند' کے ساتھ لاحقہ تذکیر 'ا' ملنے سے 'پیندا' بنا۔ بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٥٦ء کو "مجموعہ فوائد البعیان" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پینْدے [پیں (ی مجہول)+ دے]
جمع   : پینْدے [پیں (ی مجہول)+ دے]
١ - ظرف یا بیٹھک دار چیز کا وہ حصہ جو زمین یا جگہ پر رکھا جائے، تلا، تلی؛ اندرونی سطح کا نچلا حصہ۔
"طباق کا، جس جگہ سے نوالہ لیا گیا تھا پیندا نظر آنے لگا۔"      ( ١٩٤٢ء، الف لیلہ و لیلہ، ٦٦١:٢ )
٢ - لکڑی کی دھنی یا لوہے کی موٹی سلاخ وغیرہ کا وہ حصہ جو زمین سے متصل یا زمین کے اندر ہے؛ درخت کی جڑ۔
"تمام بانس پیندے کے پاس سے قطع کر دیے جائیں۔"    ( ١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ١٧٠ )
٣ - پانی کی تہہ، زمین کی تہہ۔
"یہ ناہوائی تنفس اس وجہ سے واقع ہوتا ہے کہ تالابوں کے پیندوں پر الجی کے ان گروہوں کی موجودگی کی بنا پر آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔"    ( ١٩٦٨ء، بے تخم نباتیات، ٣٣:١ )
٤ - کسی چیز کی بیٹھک یا نچلا حصہ
"پردہ دماغ کے اوپر کی طرف پتلا اور شفاف لیکن دماغ کے پیندے پر موٹا اور دھندلا ہوتا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، فلسفۂ جذبات، ٤٥ )
٥ - رحم کا وہ حصہ جو نالو ہی نالوں کے اوپر ہے۔ (ماخوذ : اصول فن قبالت، 23)۔