تہ

( تَہ )
{ تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے اپنے اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ اردو میں داخل ہوا سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
جمع   : تَہیں [تَہیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تَہوں [تَہوں (و مجہول)]
١ - نیچے، تلے، زیر۔
 رخسار مہتاب پہ گر دامن سحاب وہ نور شب فروز کا جلوہ تہ نقاب      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ١٣٣ )
٢ - تھاہ، گہرائی کی انتہا، پایاں۔
"حرت یونس نے سمندر کی تہ میں سے خدا کو پکارا تو اس نے سنا۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٥٧٤:٣ )
٣ - تلا، پیندا۔
"ایک خالی ظرف لے کر اس کی تہ میں ایک روپہ موم سے جماؤ"     "جوانی کا ابال چھٹ جاش اور جو تہ میں تلچھٹ بیٹھ گیا ہے وہ خالص اور پکی محبت باقی رہ جائے۔"      ( ١٨٥٦ء، مجموعہ فوائدالصبیان، ١١٣ )( ١٩٢٣ء، عصائے پیری، ٧٥ )
٤ - جڑ، بنیاد، اصل، حقیقت۔
"میں اس سارے مسئلہ کی تہ تک پہنچ چکا ہوں۔"      ( ١٩٤٠ء، مضامین رشید، ١٣٢ )
٥ - منشا، عندیہ، بھیجد، رمز۔
"ان مجالس میں دقیق دقیق مباحث کو جن کی تہ تک عوام نہیں پہنچ سکتے، ناپسند فرماتے تھے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٢٣٠:٢ )
٦ - [ مجازا ]  گہرائی، معنی خیزی، باریکی، وزن، رمز، کنایہ۔
"طرز تحریر کے ساتھ خیالات میں بھی انوکھا پن دکھایا ہے لیکن ان میں تہہ کم ہے۔"      ( ١٩٤٧ء، ادبی تبصرے، ١ )
٧ - نچلا یا پچھلا حصہ، پس، تحت۔
 اے گریہ دعا کر کہ شب غم بسر آوے تاچند ہر اک اشک کی تہ میں جگر آوے      ( ١٧٩٥ء، قائم، دیوان، ١٤٦ )
٨ - بدن پر فربہی کی سلوٹ، چیں۔
"یہاں کی آب و ہوا بھی بدن کی فربہی کی تہ کچھ نہ کچھ اتار دیتی ہے۔"      ( ١٩٢٠ء، بریدفرنگ، ١٢٧ )
٩ - پرت، طبق، ورق۔
 تڑپ کے ہم نے جو توڑیں بھی تیلیاں تو کیا غلاف کی بھی کئی ایک تہیں قفس پر ہیں    ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١٢٨:٢ )
١٠ - ردا، استر، پلاستر۔
"بدن کو یاں تلک مٹی لگائے رکھتے ہیں کہ تہیں جم جاتی ہیں۔"    ( ١٨٠٥ء، آرائش محفل، افسوس، ٤٧ )
١١ - [ مجازا ] وہ اثر جو عقائد کے سبب مرتب ہوں۔
"اس پر مذہبی روایات کی اس قدر تہیں چڑھ گئی ہیں کہ دیکھنے والے کو نظر نہیں آ سکتیں۔"    ( ١٩٠١ء، الغزالی، ٢ )
١٢ - فرش، سطح، زمین جیسے صندل کی تہ جو عطریات میں لگائی جاتی ہے، درمیانی پرت۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٣ - جھلک، تحریر۔
 رنگ رفتہ نے جھلک دکھلائی منہ پہ اک سرخی کی تہ سی آئی      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٣١١ )
١٤ - کبوتر کے بیٹھنے کی جگہ، وہ جگہ جہاں کبوتر کو عموماً بٹھایا جاتا ہے۔
 گٹی کو نہ پھڑکاویں تو پھر تہ کو نہ آویں چھوڑ ان کو نظیر اپنا دل اب کس سے لگاویں      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٤٧٣ )
١٥ - (پرندوں کا) پوٹا، معدہ۔
"علت، سرما زدگی کا طعمہ جلد ہضم نہ ہوے اور تہ جانور کی بخوبی صاف و خالی نہ ہوے۔"      ( ١٨٨٣ء، صیدگاہ شوکتی، ١٤٨ )
١٦ - بھورے رنگ کی بودار رطوبت جو مرغ یا بٹیر کے خالی معدے سے نکلنے لگے۔
"جب تہ آنے لگے تو فوراً دانہ دینا چاہیے ورنہ جانور کے بیمار ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، اصطلاحات پیشہ وراں، ١١٣:٨ )
١٧ - کپڑے کا اکہرا حصہ۔ (جامع اللغات)
١٨ - [ مجازا ]  بھاری بھرکم (نفی کے ساتھ)
 اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض اول تو میں مند ہوں پھر یہ مری زباں ہے      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٣٣٤ )
١ - تہ کر رکھنا
استغنا کے موقعے پر بولتے ہیں؛ اب نہیں چاہیے، سینت کر رکھنا۔"خیراسی کسر نفسی کو تہ کر رکھیے مگر یہ فرمایئے کہ آپ لکھ دیں گے"      ( ١٩١٢ء، یاسمین، ٢٣ )
ملتوی کرنا، بھول جانا۔"عمرو نے کہا آپ ان احسانوں کو تہ کر رکھیے ہیں آپ سے بات نہیں کرتا۔"      ( ١٨٩٢ء، طلسم ہوشربا، ٩١٠:٦ )
بحفاظت رکھنا۔"اکثر تعویذ کے طور پر آسیب اور نظربد اور وبا کے رفع کے لیے جزدان میں تہ ر کے گھروں میں رکھ چھوڑتے ہیں۔"      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ١٦٧ )
کوئی شے صرف اپنے لیے رکھ چھوڑنا (پلیٹس)
ترک کر دینا، ایک طرف رکھ دینا۔"بس اب اپنی دوستی نہ کر رکھو، اس وقت مجھے اپنا دشمن سمجھو۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٩٨ )
٢ - تہ سے موتی نکال لانا
سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کر لینا، مطلب پا لینا، کسی مشکل کا حل دریافت کر لینا۔"چندرگپت نے سوچ بچار کے اتھاہ ساگر میں ڈبکی لگائی اور بات کا منہ موتی تہ سے نکال لایا۔"      ( ١٩٢٩ء، ناٹک کتھا، ٩٣ )
٣ - تہِ آب ہو جانا
ڈوب جانا، غرقاب ہو جانا،"سینکڑوں گاءوں تہ آب ہو گئے"      ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ١٠٧۔ )
٤ - تہ بری نکلنا
کسی بات کا غلط یا خراب مطلب نکلنا۔ تمہاری بات میں اب تہ بری نکلتی ہے رہ ایک رمز سے کرتے ہیں نکتہ داں وسواس      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ٤١٠۔ )
٥ - تہ بیٹھنا
(عموماً گرد وغیرہ کا) کسی سطح پر جم جانا، برت جم جانا۔ عریاں تنی کی شوخی وحشت میں کیا بلا تھی تہ گرد کی نہ بیٹھی تا تن کے تئیں چھباءوں      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢١٠ )
[ حفظان صحت  ]  (کام یا بات وغیرہ کا) درست ہو جانا، طے پا جانا۔ نفع نہیں ہے رونے بلکنے میں اب صبوری سوں تہ بیٹھیا کام سب      ( ١٦٨٢ء، رضوان شاہ و روح افززا، ٥٣۔ )
پرند کا کسی خطرے سے ڈر کر بچاءو کے لیے یا بسیرا کرنے کو اس طرح دبک کر بیٹھنا کہ دکھائی نہ دے" (اصلاحات پیشہ وراں، ٦٧:٣)
٦ - تہ پانا
اصل حقیقت کو پہنچنا، کسی بات کی اصل یا گہرائی معلوم کر لینا۔ کیا پردہ داریاں ہیں تیری اے نگاہ مست تہ پا سکا کوئی بھی نہ اے بے خبر تری      ( ١٩٤٢ء، رمز و کنایات، ٢٥٦۔ )
٧ - تہ پر پہنچنا
کسی بات کی اصلیت تک پہنچنا، کسی چیز کو سمجھ لینا۔"الگو نے پہلا نام جمن کا سنا اور کلیجہ دھک سے ہو گیا گویا کسی نے اچانک تھپڑ مار دیا، رام دمن معر الکو کے دوست تھے، تہ تک پہنچ گئے"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم بتیی، ١٤٥:١ )
٨ - تہ پر تہ جمانا
پرت پر پرت رکھنا، ایک تہ پر دوسری تہ لگانا۔"جہاں پوڈوں کی تہ پر تہ جمائی جاتی ہے"      ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٢٨٥۔ )
٩ - تَہ تک پہنچنا
حقیقت معلوم کرنا۔"وہ جس مضمون کا خیال کرتے اس کی تہ تک پہنچتے"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٤٠۔ )
١٠ - تہ تیغ کرنا
تلوار سے گردن اڑا دینا، قتل کرنا۔"محض انتظام سلطنت کے لیے اس کو اور اس کی اولاد کو اور اس کے ساتھیوں کو تہ تیغ کر ڈالا"      ( ١٩٢٧ء، کائنات بیتی، ٤١۔ )
١١ - تہ ٹوٹنا
دوالا نکل جانا، کنگال ہو جانا، مفلس ہو جانا۔ (نوراللغات)
١٢ - تہ دینا
ہلکا سا رنگ دینا، ہلکا سا ڈوب دینا۔ حنا کی دی ہے تہ اس نے ملا گیری دوپٹے میں کہ تاعاشق کا جی ٹھنڈا کرے تاثیر مہندی کی      ( ١٨٢٤ء، مصحفی، دیوان (انتخاب لاہور)، ٢٥٢۔ )
کسی چیز کو تہ بتہ رکھنا یا ڈالنا، کسی چیز کی تہ جمانا یا لگانا۔"زمین کھود کھود کر ایک ایک تہ بھیس کی دِیتے جاتے ہیں اور تہ بتہ جمائے جاتے ہیں۔
ختم کرنا، نبیڑ دینا، چکانا، طے کرنا؛ پردہ ڈالنا سرانجام اس کام کا یوں کیے سو آخر کوں اس بات پر تہ دیے      ( ١٦٤٥ء، قصۂ بے نظیر، ٣٢۔ )
استر اور اصل کپڑے کے بیچ کپڑے ٹکن وغیرہ دینا، استر لگانا، کچے پھلوں کو پھونس کی تہ میں رکھنا۔ (جامع اللغات)
ملمع کرنا، قلعی کرنا۔ بجلی سے تہ دے کے اس کی پھر ملمع کرتے ہیں اور ملمع ہو کے ہر ایک چیز ہوتی ہے سجل      ( ١٩١٦ء، سائنس اور فلسفہ،٦٢۔ )
١٣ - تہ کرنا
قاعدے اور احتیاط سے کپڑے یا پھیلی ہوئی شے وغیرہ کو لپیٹنا۔"اس نے کاغذ لے کر ایک دھمکی کا خط لکھا اور اسے تہ کر کے بڑھیا کو دے دیا۔      ( ١٩١٤ء، الف لیلہ و لیلہ، ٢٦٤:٢۔ )
چھپانا، ظاہر نہ کرنا۔ گل اگر سنمکھ ہو بعضے بھید کچھ کہہ کر گئے بلبلو کتنے ہی غنچے راز دل تہ کر گئے      ( ١٨٨٥ء، درد، دیوان، ٨٦۔ )
تہ کر رکھنا۔ ہوئی جو صلح تو اب احتیاط یہ کیسی تکلفات تو نہ کیجیے ملے تو ملے      ( ١٩٢١ء اکبر، کلیات، ٣٥٥:٣ )
پس پشت ڈالنا۔ تہ کرو صاحب نسب نامہ وہ وقت آیا ہے آج بے اثر ہو گی شرافت حال دیکھا جائے گا      ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٥٢۔ )
ختم کرنا۔ مے برستی ہے آسماں سے آج تہ کرو شیخ سبعہ گردانی      ( ١٨٩١ء، عاقل، دیوان، ١٣٧۔ )
کسی یادگار واقعہ کو بھول جانا یا اس کمتر سمجھنا۔ نیزہ لیا جو حر نے اماں بولی الاماں تہ کی فلک نے رسم دستاں کی داستاں      ( ١٨٧٤ء، دبیر، دفتر ماتم، ١٣٧:٢ )
کسی چیز کو بھلا دینا۔"تم نے ململ جان کے عشق میں ڈھاکہ والی کو تہ کر دیا اور اس کے دل کو داغدار بنا دیا"      ( ١٩٢١ء، گاڑھے خان کا دکھڑا، ١١۔ )
چھوڑ دینا۔"بس اس لکھنے پڑھنے کے مشغلے کو تہ کرو"      ( ١٩٣٣ء، عصائے پیری، ١٢٣۔ )
سنبھال کر سلیقے سے رکھنا۔"کینو نے جھک کر کپڑا لے لیا اس کے کئی تہ کر اس نے ایک کدی بنائی"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، خاک پردانہ،٣٢۔ )
لپیٹنا، گرداننا۔ نہ کیا غنچے نے کس طرح حیات گل کو حیرت انگیز ہے دامن کا گریباں کرنا      ( ١٩٢٧ء، دیوان صفی، ٣٨۔ )