پھانک

( پھانْک )
{ پھانْک (ن مغنونہ) }
( سنسکرت )

تفصیلات


پراش+ک  پھانْک

سنسکرت میں لفظ 'پراش + کہ' سے ماخوذ 'پھانک' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : پھانْکیں [پھاں + کیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پھانْکوں [پھاں + کوں (و مجہول)]
١ - کسی پھل کا تراشا ہوا ٹکڑا، قاش۔
 جو مانگو گے ایک پھل مسلم وہ کاٹ کر ایک پھانک دیں گے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٤١٩:١ )
٢ - نارنگی، سنگترہ وغیرہ کے پوس کی شکل کے جزو جو قدرتاً علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔
"نارنگیوں کے بدلے اللہ کا نام بھیجیں کیا اپنا سر . آیا جائے زبان جو ایک پھانک بھی کھائی ہو۔"    ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٨٣ )
٣ - [ بطور اسم مذکر (قدیم) ] پنکھڑی
 کہ گل لعل کے پھانک پر ریکھ یوں ہے سوتیوں تج ادھر میں شکن ہے صنابع    ( ١٦١١ء، قلی قطب شاہ، کلیات، ١٥٢:٢ )
٤ - حصہ، ٹکڑا؛ لمبی پٹی۔
"اس میں کھولتا ہوا پانی اس قدر ملا دو کہ دونوں پھانکیں چمڑے کی اس میں اچھی طرح ڈوب سکیں۔"    ( ١٩٤٠ء، معدنی دباغت، ١٣٧ )
٥ - شگاف، کٹاو، درز۔
 کیا یک وار میں کئی دل کی پھانکیں لگا ہے ہاتھ کیا کامل کسی کا      ( ١٧٣٩ء، کلیاتِ سراج، ١٥١ )
٦ - لہسن کا جوا؛ دروازے کی دراڑ۔ (شبدساگر؛ پلیٹس)
٧ - بنوٹ کے ایک ہاتھ کا نام۔ (عقل و شعور، 448)
"سپر کو داہنی جانب کمر کے برابر لاوے پھر سیف سے الٹی پھانک مارے۔"      ( ١٨٩٨ء، قوانین حرب و ضرب، ٤٣ )
٨ - پھانکنا کا اسم کیفیت۔
 مدینے سے گیا وہ ابر سب پھانک اٹھی برسات کی چاروں طرف ہانک      ( ١٧٩١ء، ہشت بہشت، ١٠٩:٧ )
  • flake
  • slice
  • piece
  • mouthful (of)