قاش

( قاش )
{ قاش }
( ترکی )

تفصیلات


ترکی زبان سے اسم جامد اردو میں داخل ہوا اور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٧٤ء کو "نشید خسروانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : قاشیں [قا + شیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : قاشوں [قا + شوں (واؤ مجہول)]
١ - ٹکڑا، حصہ۔
 کتنی ماؤں کے کلیجے کی ہیں قاشیں تجھ میں کتنے مہ پارہ جوانوں کی ہیں لاشیں تجھ میں      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبُو، ٤٨ )
٢ - پھل یا ترکاری کا طبا تراشا ہوا ٹکڑا، پھانک، ٹکڑا (بعض پھلوں میں قدرتی طور پر قاشیں ہوتی ہیں مثلاً نارنگی وغیرہ)۔
"فوراً کچھ ککڑیوں کی ترشی ہوئی قاشیں لے آؤ! ترشی ہوئی قاشیں آئیں تو بادشاہ نے ایک قاش اٹھائی، منہ میں رکھی۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ١٨٧ )
٣ - ابرو، بھوں؛ پارہ، قطعہ۔ (فرہنگ آصفیہ؛ پلیٹس؛ اسٹین گاس)
  • the eye-brow;  a slice
  • cut
  • piece
  • bit;  a chop
  • steak;  the bow