چھالا

( چھالا )
{ چھا + لا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'چھلی' سے ماخوذ چھال بنا۔ الف بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'چھالا' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٢٥ء کو "بکٹ کہانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چھالے [چھا + لے]
جمع   : چھالے [چھا + لے]
جمع غیر ندائی   : چھالوں [چھا + لوں (و مجہول)]
١ - آبلہ، پھیولا، تپ خالہ۔
"اسٹول پر میرا پاؤں رکھ کر چھالا پنکچر کیا . پٹی کر دی۔"      ( ١٩٧٦ء، بوئے گل، ٧٧ )
٢ - زہر کی تھیلی جو سانپوں کے منہ میں ہوتی ہے۔
 بس بن گئے ہیں سانپ کے چھالے کا وہ آنسو بھر بھر کے جو آنکھوں کے کٹوروں میں پیے تھے      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ١٠٦ )
٣ - تلوار وغیرہ کے لوہے یا شیشے وغیرہ کا دھبا، بال یا میل وغیرہ کا ابھرا ہوا نشان یا دانہ۔
 ہے امڈا ہوا جی کہ پتھر کا چھالا نہ کب تک رسے گا نہ کب تک بہے گا      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٢٠ )
٤ - [ ملمع کاری ]  دھبہ یا سیلا نشان جو ملمع پر آ جائے، یہ صورت صفائی یعنی جگری کرنے میں نقص رہ جانے سے پیدا ہوتی ہے کیوں کہ جس جگہ میلا پن رہ جاتا ہے وہاں ورق جذب نہیں ہوتا اور جلا میں نکل جاتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 47:3)
٥ - کسی سیال چیز کے مسلسل رسنے ابلنے اور ٹپکنے کی کیفیت جیسے آنسو کا چھالا۔
 یہ آنکھ اپنی ساون ہے وہ آنکھ بھادوں ٹپاٹپ ہے آنسو کی، پانی کا چھالا      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٢٦ )
٦ - کھال، پوست؛ کھال کا سلا یا بے سلا لبادہ وغیرہ، پوستین۔
 زندہ جو یہ ہاتھ آیا تو شوق سے پالوں گی مردہ جو ملا تو پھر چھالا ہی بنا لوں گی۔      ( ١٩٢١ء، سیتارام، ٦١ )
٧ - وہ نشان جو ہرن کی پیٹھ پر نشست کی وجہ سے پڑ جاتا ہے۔ (جامع اللغات : نوراللغات)