چھاؤنی

( چھاؤنی )
{ چھا + او (و مجہول) + نی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'چھایا' کا ایک تلفظ 'چھاون' کے ساتھ 'ی' لاحقۂ تانیث لگانے سے 'چھاؤنی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٧٣ء کو "مطلع العجائب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مؤنث - واحد )
جمع   : چھاؤنِیاں [چھا + او (و مجہول) + نِیاں]
جمع غیر ندائی   : چھاؤنِیوں [چھا + او (و مجہول) + نِیوں (و مجہول)]
١ - وہ مقام جہاں فوج مستقل یا عارضی طور پر رہے، لشکر گاہ، سپاہیوں کی بیرکیں، کیمپ؛ پڑاؤ۔
"اپنے پٹھان دوستوں سے پشاور چھاؤنی کی دلچسپیوں . کے چرچے سنے تو نہایت بے تابی سے رخت سفر باندھا۔"      ( ١٩٦٦ء، بجنگ آمد، ٤٠ )
٢ - کھپریل، چھپر، خس پوش، سایہ کرنے کی چیز۔
"چھاونی کے معنی ہیں جسے چھایا جائے۔"      ( ١٩٧٢ء، اردو قواعد، شوکت سبزواری، ٤١ )
٣ - سرکاری عملہ کا مکان جس کو زمین دار کچہری کہتے ہیں؛ بڑا مکان۔
"باپ کی وفات کے بعد یہ انقلاب ہوا کہ وہ خود چھاونی میں جہاں وہ رہتی تھیں تشریف لے گئے۔"      ( ١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٣٥٥ )
٤ - چھپر بنانے کا یا چھت ڈالنے کا فن یا ہنر۔ (پلیٹس؛ جامع اللغات)
٥ - گرنڈ کے آکھروں (کھڑ کھمبے) کا پٹاؤ۔
"جب آکھلے ایک دوسرے سے کچھ زیادہ فاصلے پر ہوتے ہیں تو ان پر ایک پٹاؤ ڈال کر جس کو اصطلاحاً چھاونی بھرت اور مانجھی کہتے ہیں اس کے اوپر چھوٹے آکھرے کھڑے کر کے ان میں گھرنی لگائی جاتی ہیں۔"      ( ١٩٤٢ء، اصطلاحات پیشہ وراں، ١٦٥:٦ )
٦ - خس پوش مکانات، پھونس کے بنگلے۔ (جامع اللغات)
  • مُعَسْکَرْ