چھپر

( چَھپَّر )
{ چَھپ + پَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


چھتورہ  چَھپَّر

سنسکرت زبان کے لفظ 'چھتورہ' سے ماخوذ 'چَھپَّر' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چَھپَّروں [چَھپ + پَروں (و مجہول)]
١ - پھوس سے تیار کیا ہوا سائبان، پھوس کی چھت۔
"پہلے سال پھوس کا چھپر گرا دوسرے سال ایک دیوار گری۔"      ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ٩ )
٢ - سینہ کی ایک طرف کی ہڈیاں، پسلی۔
"مرغ کے سینے کا دو پلکا چھپر ہاتھ میں لے کر چٹکیوں سے کھینچتی تھیں۔"      ( ١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٠، ٩:١٥ )
٣ - جھونپڑی؛ وہ برآمدہ جس کی چھت پھوس کی ہو، پھوس کا سائباں۔
"میں اس آدمی کی مثل ہوں جو چھپر میں رہتا ہو اور اس کے گرد سب طرف آگ لگ رہی ہو۔"    ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ٣٠٠ )
٤ - غریب کا گھر، ٹھکانہ۔
 اجاڑا گر کسی مفلس کا چھپر اکھاڑا خیمہ و خرگاہ لشکر    ( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٥٤ )
٥ - بوجھ، بار، وہ برساتی پانی جو اکثر گڑھوں میں بھر جاتا ہے اور اس میں سنگھاڑے یا کنول گٹے بو دیا کرتے ہیں۔ (نوراللغات)
٦ - [ مجازا ]  بڑی داڑھی؛ اڑنے والے کبوتروں کا سو دو سو کا غول۔
 عاشقوں کے نامہ بر اتنے کبوتر جاتے ہیں جب وہ کوٹھے پر چڑھا چھپر کا چھپر اڑ گیا      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان، ٤١ )